لاش کو پھانسی دینے کا حکم کہاں سے آیا؟

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آنے والے فیصلے کا ایک پیرا گراف متنازع بن گیا ہے، لیکن کیا اس کی کوئی تاریخی مثال موجود ہے؟

(اے ایف پی، کری ایٹو کامنز)

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف جمعرات کو جاری ہونے والے خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کا ایک پیرا گراف خاص طور پر بحث کا موضوع بن گیا ہے اور سوشل میڈیا پر اس بارے میں تند و تیز بحث جاری ہے۔

تفصیلی فیصلے میں شق نمبر 66 نمبر میں لکھا ہے: ’ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش کریں اور یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے، اور اگر وہ مردہ پائے جائیں تو ان کی لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک تک گھسیٹا جائے اور تین دنوں تک لٹکایا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ پیرا صرف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے میں ہے جس سے بینچ کے باقی دو ججوں نے اتفاق نہیں کیا۔ جسٹس شاہد کریم بقیہ تمام فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں لیکن انہوں نے اس شق کی مخالفت کی ہے جبکہ جسٹس نذر اکبر نے پورے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔

جسٹس شاہد لکھتے ہیں: ’میں نے خصوصی عدالت کے صدر کے فیصلے کا مسودہ پڑھا ہے اور میں اس کے نتائج اور سزا سے اتفاق کرتا ہوں (سوائے پیرا 66 کے)۔‘

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیرا 66 اقلیتی حکم ہے اور اسے صرف ایک جج کی حمایت حاصل ہے، دو جج اس کے خلاف ہیں۔

یہ فیصلہ آیا کہاں سے؟

پیرا 66 سے اگلے پیرے 67 میں وضاحت کی گئی ہے کہ فیصلے کا یہ حصہ اور سزا پر نفاذ کے اس طریقے کا کہیں بھی ذکر نہیں۔

دنیا بھر کے جدید قانون میں واقعی اس قسم کی سزا کی کوئی مثال موجود نہیں لیکن اگر تاریخ کے صفحات پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی ایک مثال نظر آتی ہے۔

17ویں صدی میں برطانیہ میں ایک آمر گزرا ہے جس کا نام اولیور کرامویل تھا۔ کرامویل نے 1653 میں برطانیہ کی حکومت پر بزور طاقت قبضہ کر کے پارلیمان کو تحلیل کر دیا تھا۔

اس سے چند سال پہلے وہ برطانیہ کے بادشاہ چارلز اول کو پھانسی دلوانے والوں میں پیش پیش تھے۔

1658 میں کرامویل ملیریا کا شکار ہو کر فوت ہو گئے اور انہیں قومی اعزاز کے ساتھ ویسٹ منسٹر ایبی کے شاہی قبرستان میں دفنایا گیا، لیکن اگلے دو برس کے اندر اندر چارلز اول کا بیٹا چارلز دوم نے تخت پر قبضہ کر لیا۔

انہوں نے آتے ہی کرامویل سے بدلہ لینے کی ٹھانی اور 30 جنوری 1661 کو چارلز اول کی بارہویں برسی کے موقعے پر کرامویل کی قبر کھود کر لاش نکالی اور ڈھانچے کو لندن کے ایک چوک میں زنجیروں سے باندھ کر پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد ان کی باقیات کو تو دفنا دیا گیا لیکن کھوپڑی اگلے 24 برس تک ویسٹ منسٹر ہال کے باہر ایک کھمبے پر لٹکتی رہی۔

بعد میں یہ سر مختلف لوگوں کے پاس رہا اور بالآخر 1960 میں کہیں جا کر اسے دوبارہ دفنایا گیا۔    

سوشل میڈیا پر بعض لوگوں نے قیاس آرائی کی ہے کہ ممکن ہے جج کے سامنے پیرا 66 لکھتے وقت کرامویل کی مثال موجود رہی ہو، کیوں کہ اس کی طرح صدر مشرف نے بھی ملک کا آئین توڑا تھا اور پارلیمان کے اختیارات سلب کر لیے تھے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ