جنرل مشرف کبھی بھی غدار نہیں ہو سکتے: آئی ایس پی آر

آئی ایس پی آر کے مطابق اس فیصلے پر افواج پاکستان میں ہر سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

(اے ایف پی)

سنگین غداری کیس میں سابق آرمی چیف کو سزائے موت سنانے پر آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے حوالے سے خصوصی عدالت کے فیصلے پر پاکستانی افواج کی ہر سطح پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا کے فیصلے کے بعد جی ایچ کیو میں اعلی عسکری قیادت کا اجلاس ہوا اور اس معاملے پر مشاورت کی گئی۔ بعد ازاں پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق جنرل مشرف ایک سابق آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اور صدر پاکستان رہ چکے ہیں جنہوں نے ملک کی چالیس سال تک خدمت کی ہے اور ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں اس لیے وہ غدار کبھی بھی نہیں ہو سکتے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کیس میں بظاہر قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے جیسا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل، دفاع کے بنیادی حقوق اور کیس کو نمٹانے میں جلدی ظاہر کی گئی۔
بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی افواج امید کرتی ہیں کہ آئین پاکستان کے مطابق انصاف کیا جائے گا۔ 

مبصرین کے مطابق افواج پاکستان کی طرف سے ایسا بیان بہت غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے۔ 

ٹوئٹر پر ایک سوشل میڈیا صارف خالد منیر نے سوال کیا کہ کیا اتنے شدید ردعمل کی ضرورت تھی؟

واضح رہے کہ سنگین غداری کا مقدمہ سننے والی خصوصی عدالت آج منگل کے روز سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو تین نومبر 2007 کو ملک کا آئین توڑنے کی پاداش میں سزائے موت کا فیصلہ سنا چکی ہے۔

اسلام آباد میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت یہ فیصلہ دیا۔

چار سطروں پر مشتمل مختصر فیصلہ خصوصی عدالت کے سربراہ جج جسٹس سیٹھ وقار نے پڑھ کر سنایا۔ عدالت کے دوسرے اراکین میں جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم شامل تھے۔

تین رکنی خصوصی عدالت میں شامل دو ججوں نے جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو موت کی سزا دئیے جانے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس کی مخالفت میں فیصلہ دیا تھا۔

سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 کو آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی تھی۔ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو بھی سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت توڑتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی اور اس موقعے پر انہوں نے سپریم کورٹ کے ججوں کو ان کی رہائش گاہوں پر نظر بند بھی کر دیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان نے بعد میں جنرل مشرف کے 1999 کے عمل کی توثیق کر دی تھی۔ اور انہیں بحیثیت چیف ایگزیکٹیو 1973 کے آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دے دی تھی۔

 پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران قائم کیا گیا تھا اور 20 نومبر 2013 کو تین رکنی خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی۔

خصوصی عدالت نے 31 مارچ 2014 کو مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا فرد جرم عائد کیا تھا۔

اس وقت کی حکومت نے معروف وکیل اکرم شیخ کی سربراہی میں پراسیکیوشن ٹیم تشکیل دی تھی۔

پرویز مشرف کبھی بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ اور اسی لیے 19 جون 2016 کو خصوصی عدالت نے انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔

خصوصی عدالت نے اس سال 24 نومبر کو حتمی فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے پانچ دسمبر کو سنانے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ اس سے قبل ہی وفاقی حکومت نے اکرم شیخ کی سربراہی میں پراسیکیوشین ٹیم ڈی نوٹیفائی کر تے ہوئے اس مقصد کے لیے علی ضیا باجوہ اور منیر حسین بھٹی پر مشتمل نئی ٹیم کی تعیناتی کا حکم جاری کیا۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور پرویز مشرف کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست کے ذریعے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس میں فیصلہ سنانے سے روکنے کی استدعا کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 27 نومبر کو خصوصی عدالت کو حتمی فیصلے کے اعلان سے روکتے ہوئے ملزم کو فئیر ٹرائل کا موقع فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

خصوصی عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر تحفظات کے باوجود پانچ دسمبر کو فیصلہ نہیں سنایا اور نئی پراسیکیوشن ٹیم کو دو ہفتوں میں اپنے دلائل پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے 17 دسمبر کو فیصلہ سنانے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان