کیلاش: آگ کے گرد رقص کا دلچسپ تہوار ’چانجا‘

کیلاش قبیلے کے لوگوں نے چھومس کے دوران مخصوص ثقافتی اور روایتی تہوار ’چانجا‘ منایا۔

کیلاش قبیلے کے لوگوں نے چھومس کے دوران مخصوص ثقافتی اور روایتی تہوار ’چانجا‘ منایا۔ اس موقعے پر مشعل بردار خواتین اور مرد ایک پہاڑی سے اتر کر مخصوص راستوں سے ہوتے ہوئے ایک میدان میں جمع ہوئے، جہاں پہلے سے آلاؤ (بون فائر) تیار کیا گیا تھا اور اس کے گرد رقص کیا۔

بین الاقوامی اہمیت کے حامل کیلاش قبیلے کے لوگ سال میں دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں۔

چھومس جسے ’چھتر مس‘ بھی کہا جاتا ہے، موسم سرما میں منایا جاتا ہے اور سال کا آخری تہوار ہوتا ہے۔ اس تہوار کی تیاری سات دسمبر سے شروع ہوتی ہے مگر یہ تہوار16 دسمبر کو اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے۔

وادی رومبور کے لوگوں نے چھومس کے دوران چانجا کا نہایت دلچسپ تہوار منایا۔ چانجا مناتے وقت کیلاشی مرد اور خواتین ایک پہاڑی پر چڑھ کر وہاں آگ کا آلاؤ جلا کر اپنی عبادت وغیرہ کرتے ہیں۔

اس کے بعد یہ لوگ ایک مخصوص درخت کی لکڑی کی شاخیں جلا کر ہاتھ میں پکڑتے ہیں جسے مقامی زبان میں ’دو دار‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لکڑی بہت چکنی ہوتی ہے اور تیل زیادہ ہونے کی وجہ سے موم بتی کی طرح مسلسل جلتی ہے۔

کیلاشی مرد ایک راستے سے گزرتے ہوئے گیت گاتے اور رقص کرتے ہوئے ایک خاص مقام کی طرف چلتے ہیں جسے چرسو کہا جاتا ہے یعنی رقص گاہ۔

اس کے پیچھے خواتین بھی ہاتھوں میں جلی ہوئی لکڑی پکڑ کر گزرتی ہیں اور راستے میں مذہبی گیت گاتی اور رقص کرتی ہیں۔

اس مشعل بردار جلوس میں شامل ہونے کی شرط یہ ہے کہ جو لوگ دور دراز پہاڑی دروں میں رہتے ہیں وہ بھی ہاتھ میں جلی ہوئی لکڑی کی مشعل پکڑ کر اس میں شامل ہوں۔

کیلاش لوگ اس دوران نہ تو مسلمانوں سے ہاتھ ملاتے ہیں اور نہ مسلمان ان کے گھروں میں جاسکتے ہیں۔

اس تہوار کے دوران تین دن تک یہ لوگ بازار یعنی دکانوں سے کوئی چیز بھی نہیں خریدتےاور گھر میں پہلے سے پڑا ہوا سامان استعمال کرتے ہیں۔

چانجا کا جلوس مخصوص راستوں سے گزر کر ایک بڑے میدان میں اکھٹا ہوتا ہے جہاں پہلے سے آلاؤ تیار ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 یہ لوگ اپنے ہاتھوں میں جلتی ہوئی لکڑیاں اس بڑی آلاؤ میں پھینکتے ہیں جس کو تبرک سمجھا جاتا ہے اور اس کے ارد گرد گیت گاتے ہوئے رقص پیش کیا جاتا ہے۔

یہ رقص رات دیر تک جاری رہتا ہے اور جب صبح کے قریب آگ بجھ جاتی ہے تو یہ لوگ اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔

چانجا تہوار سے پہلے یہ لوگ اپنی روایات کے مطابق قربانی کرتے ہیں اور اس دوران اگر ان کے گھر کا کوئی فرد باہر سے آئے تو وہ ایک بکرا ذبح کرکے اس کا خون ان پر چڑھاتے ہیں تاکہ وہ اس طریقے سے پاک ہوجائے اور جلوس میں شامل ہوسکے۔

چھومس تہوار کے دوران کیلاشی مرد تین دن تک گھروں کو نہیں جاتے اور مویشی خانے میں رہتے ہیں۔ ان تین دنوں میں یہ لوگ جانوروں کو جھٹکے کے ذریعے قربان کرتے ہیں، جس کا گوشت مسلمان نہیں کھا سکتے۔

اگر کوئی باہر سے یا دوسری وادی سے کیلاش جانا چاہے تو اسے ایک بکری کی قربانی دینا پڑے گی۔

جن خواتین کے مخصوص ایام ہوں، وہ اس تہوار میں شرکت نہیں کرسکتیں۔ تاہم جب ان کے مخصوص ایام پورے ہو جائیں تو ان کو غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کیلاشی مرد ایک خاص جگہ جاکر جسے جسٹکان کہتے ہیں، آگ جلاتے ہیں اور جلائی ہوئی آگ میں سے چند ٹہنیاں ان خواتین کی سروں پر تین مرتبہ پھیرتے ہیں جس سے وہ پاک ہو جاتی ہیں۔ مرد ایک خاص قسم کی روٹی پکاتے ہیں اور اس روٹی کو ان خواتین کو کھلایا جاتا ہے۔

یہ لوگ تین دن کے بعد مویشی خانوں اور گھروں سے نکلتے ہیں اور ایک مخصوص میدان میں مرد اور خواتین اکٹھے رقص پیش کرتے اور گیت گاتے ہیں۔ 

اس نہایت دلچسپ اور رنگارنگ تہوار کو دیکھنے کے لیے کثیر تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح بھی وادی کیلاش پہنچتے ہیں مگر سہولیات کی کمی، راستوں کی خرابی اور اندھیرے کی وجہ سے نہ صرف سیاحوں کو نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ کیلاش لوگ بھی گو نا گوں مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔

گلگت بلتستان سے آئے ہوئے ایک سیاح منظور قادری نے بتایا کہ رات کا وقت ہے اور منفی پانچ درجہ حرارت ہے، مگر اس کے باوجود ان لوگوں کا خون گرم ہے اور یہ نہایت دلچسپ تہوار مناتے ہیں۔ 

ایک کیلاشی لڑکی کرینہ اعظم نے بتایا ’ہمارے رقص کی جگہ نہایت تنگ ہے اور راستے بھی بہت خراب ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف سیاحوں کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ ہمیں بھی بہت تکلیف ہے، اگر حکومت ہماری سڑک کو کم از کم مرمت کرکے سفر کے قابل بنا دے اور ہماری رقص کی جگہ کو بڑا کرے تو ہمیں بھی آسانی ہوگی اور سیاحوں کی مشکلات میں بھی کمی آئے گی۔‘

کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے مخصوص نشست پر رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ کیلاش کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے ابھی ان کی مذہبی جگہ جسٹکان اور رقص گاہ کے لیے جگہ خریدی ہے اور مستقبل قریب میں ان منصوبوں پر کام شروع ہو جائے گا، اس کے علاوہ سڑک بھی تعمیر کی جائے گی اور سیاحوں کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے وادی میں چار ارب روپے کی لاگت سے ترقیاتی کام ہوں گے۔

تاہم چند سیاحوں نے اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا کہ کہیں وادی کیلاش کے لیے ترقیاتی کاموں کے اعلان پہلے کی طرح صرف زبانی جمع خرچ نہ ہوں۔

واضح رہے کہ چانجا کا مشعل بردار جلوس نکالتے وقت پوری وادی رمبور میں نہایت اندھیرا تھا اور سڑک بھی ٹوٹ پوٹ کی شکار تھی۔

راستے کی خرابی کے ساتھ ساتھ اس میں جگہ جگہ پانی کھڑا تھا اور سخت سردی کے باعث یہ پانی جم کر برف بن چکا تھا جس پر کیلاشی خواتین اکثر چانجا کے جلوس کے دوران پھسل کر گر بھی جاتی ہیں۔

صوبائی وزیر سیاحت محمد عاطف نے اعلان کیا تھا کہ کیلاشی لوگوں کی سہولت کے لیے انہوں نے راستے میں روشنی کا بندوبست کیا ہے اور ہر جگہ شمسی توانائی سے چلنے والے بلب لگائے گئے ہیں مگر مقامی لوگوں کو شکایت تھی کہ ان کو یہ بلب اور روشنی کہیں نظر نہیں آئی۔

مقامی لوگ صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وادی کیلاش کی سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں اور سیاحوں کی سہولت کے پیش نظر اپنے وعدے پورے کیے جائیں اور ان سڑکوں کی حالت بہتر بنائی جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا