بھارت میں احتجاج مزید پھیل گیا، 20 افراد ہلاک

ہزاروں افراد نے ہفتے کو بھی ملک بھر میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف ریلیاں نکالیں، سب سے زیادہ ہلاکتیں اتر پردیش میں ہوئیں، جہاں کم از کم 11 افراد مارے گئے۔

وارنسی میں پولیس اہلکار متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے شخص کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں (اے ایف پی)

بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 20 ہو گئی جبکہ آسام میں مسلمان آبادی کے لیے این آر سی بل کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ مزید شہروں تک پھیل گیا۔ 

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہفتے کو ہزاروں افراد نے ملک بھر میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف ریلیوں میں شرکت کی۔ 
حکام کے مطابق بدامنی کے واقعات میں اب تک 20 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سب سے زیادہ ہلاکتیں ریاست اتر پردیش میں ہوئیں، جہاں بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ یہاں احتجاج کے دوران ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں آٹھ سالہ بچے سمیت کم از کم 11 افراد مارے گئے۔
سخت پابندیوں کے باوجود ہفتے کو جنوبی ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چنئی اور مشرقی ریاست بہار کے سب سے بڑے شہر پٹنہ سمیت مزید شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی مظاہروں کا سلسلہ رکنے کا کوئی امکان نہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ متنازع قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ظاہر کرتا ہے اور یہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ہندو قوم پرست جماعت کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اتر پردیش کے، جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 20 فیصد ہے، پولیس ترجمان شریش چندرا نے اے ایف پی کو بتایا کہ گولی لگنے کے واقعات میں کم سے کم 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’یہ تمام افراد گولی لگنے سے ہلاک ہوئے۔ ہم دوسرے معاملات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔‘ 
ضلعی پولیس سربراہ پربھاکر چوہدری نے اے ایف پی کو بتایا جمعے کو ہندوؤں کے مقدس شہر وارنسی میں ایک ریلی میں 2500 افراد شریک تھے، جہاں ایک بچہ بھی مارا گیا۔
چوہدری نے کہا: ’جب پولیس نے احتجاج روکنے کی کوشش کی تو یہ افراد بھاگ نکلے اور بھگدڑ جیسی صورتحال پیدا ہوگئی جس سے اس لڑکے کی موت واقع ہوگئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹائمز آف انڈیا نے بتایا کہ یہ بچہ اپنے ایک دوست کے ساتھ گلی میں کھیل رہا تھا جب ہجوم نے پولیس سے بچنے کے لیے یہاں کا رخ کیا۔

بدامنی کے نتیجے میں اترپردیش میں اور ایک اور ہلاکت ہوئی جبکہ جنوب مغربی ریاست کرناٹک میں دو افراد مارے گئے۔ 
شمال مشرقی ریاست آسام میں، جہاں گذشتہ ہفتے مظاہروں کی لہر شروع ہوئی تھی، ایک اور ہلاکت دیکھی گئی، جس کے بعد یہاں مرنے والوں کی تعداد چھ ہو گئی اور درجنوں زخمی ہیں۔
بھارت میں پولیس نے عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں احتجاج کے تیسرے روز بھی کارروائیاں جاری رہیں۔ 
اس دوران شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہرے میں چار ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
مظاہرین نے بھارتی پرچم لہراتے ہوئے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ مودی حکومت ملک کی سیکولر جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور بڑی مسلم اقلیت کو غیراہم بنا رہی ہے۔
اسی طرح جامع ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے باہر بڑے مظاہرے کیے گئے۔ 
یہاں طلبہ نے شہریت کے متنازع قانون کی واپسی کے لیے دستخطی مہم شروع کی جس دوران پرتشدد جھڑپیں ہوئیں اور طلبہ نے پولیس پر طاقت کے بےجا استعمال کا الزام لگایا۔ بعد میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں درجنوں افراد شدید زخمی ہوئے۔
بڑھتی ہوئے بدامنی کے جواب میں حکام نے مختلف سڑکیں رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دی ہیں اور نئی دہلی اور لکھنو میں مساجد کے ارد گرد علاقوں کو سکیورٹی فورسز کے قلعوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ 
اترپردیش کے کئی قصبوں میں پرتشدد واقعات میں پولیس نے مظفر نگر، سہارن پور، فیروزآباد اور گورکھ پور میں آنسو گیس کے استعمال اور لاٹھی چارج کر کے مظاہرین کو منتشر ہونے پر مجبور کر دیا۔
جنوبی شہر منگلور میں جمعرات کی رات کو پولیس اہلکاروں کو ان مظاہرین کو مارتے ہوئے دیکھا گیا جنہوں نے ہسپتال میں پناہ لے رکھی تھی۔ لوگوں نے پتھراؤ کیا جس کے بعد پولیس نے دروازوں پر لاتیں ماریں۔
دریں اثنا دہلی کے شمال میں دو مظاہرین اس وقت مارے گئے جب ان پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔ پولیس افسر دنیش رائے نے بتایا کہ پولیس نے ہجوم پر فائرنگ نہیں کی اور ہلاکتوں کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔
آسام، اترپردیش اور کرناٹک کی ریاستوں میں بھی مظاہروں کے دوران ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان مظاہروں میں مختلف علاقوں، ثقافتوں کے لوگوں نے شرکت کی۔
بھارت میں بدامنی کا آغاز اس وقت ہوا جب حکومت نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا۔ 
یہ بل نریندرمودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے پیش کیا تھا جس کا مقصد ہمسایہ ممالک کی مذہبی اقلیتوں کے بھارتی شہریت کا راستہ آسان بنانا تھا۔
بھارتی حکومت کی پالیسی کے تحت بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد، مسیحیوں، ہندوؤں، جین، پارسیوں اور سکھوں کو کم وقت میں بھارتی شہریت دینے کی پیش کی گئی ہے جو افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر بھارت پہنچے تھے۔ 
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا