چین لیون نے کچرے کی ٹوکری میں سے پلاسٹک بیگز کو الگ کرتے ہوئے سٹور مالک سے کہا کہ ’آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے، اگلی مرتبہ آپ مزید بہتر کرسکتے ہیں۔‘
ساتھ ہی وہ اسے بتاتی جا رہی تھیں کہ پلاسٹک کو سبز کے بجائے زرد رنگ کی بالٹی میں رکھنا چاہیے، تاکہ اسے ری سائیکل کرکے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاسکے۔
چینی دارالحکومت بیجنگ کے قریب واقع صوبے ہیبئی کے گاؤں شیکائی میں کچرا اکٹھا کرتے ہوئے چَین کا یہ دوسرا دن تھا۔
چَین کے والدین بھی اسی گاؤں کے رہائشی تھے، یہی وجہ ہے کہ ’زیرو ویسٹ‘ (اشیاء کے ضیاع کے خلاف پالیسی) پر عمل پیرا چَین نے اپنے آبائی علاقے سے ہی اس مہم کا آغاز کیا۔
وہ ایک ماحولیاتی گروپ ’چائنا زیرو ویسٹ الائنس‘ کی بانی ہیں، جن کے مطابق ’ہمیں لوگوں کو اس حوالے سے منظم کرنے کی ضرورت ہے کہ بیکار اشیاء کو کس طرح کم سے کم کرنا ہے، شہروں میں یہ کام کرنا کچھ مشکل ہے، کیونکہ وہاں بہت سارے لوگ ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کا گروپ انفرادی طور پرایک ایک گاؤں میں مہم چلا کر چینی قوم کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ بیکار اشیاء کی ری سائیکلنگ کیسے کی جاسکتی ہے۔‘
چَین کے مطابق ’گاؤں دیہاتوں میں لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں، لہذا لوگوں کو منظم کرنا کچھ بہت زیادہ مشکل نہیں ہوتا، دوسرا چونکہ ان کے پاس زمین موجود ہوتی ہے، لہذا کچرے کو ٹھکانے لگانا بھی آسان ہوتا ہے۔‘
سنہ 1980 کی دہائی تک چین میں بہت کم کچرا ہوا کرتا تھا۔ ملک غریب تھا، لوگ زیادہ چیزیں نہیں خریدتے تھے تو اشیاء ضائع بھی زیادہ نہیں ہوا کرتی تھیں۔
پھر معاشی انقلاب آیا اور اس کے ساتھ ساتھ کچرے کا انبار بھی، جن میں کمپیوٹر پارٹس، پلاسٹک پیکجنگ، دودھ کے ڈبے، موبائل فون کے ٹوٹے ہوئے پارٹس، پولیسٹرین اور کارڈ بورڈ باکسز شامل تھے۔
اور اب گھروں کی دہلیز پر کھانا فراہم کرنے والی سروسز اور آن لائن شاپنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث صارف بہت سستی قیمت پر ببل ٹی کا کپ یا آئسکریم منگوا سکتے ہیں۔ لہذا نئے قسم کا کچرہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
اگرچہ ایک اوسط چینی شہری، ایک اوسط امریکی شہری کے مقابلے میں آدھا ٹھوس فضلہ پیدا کرتا ہے، لیکن چین میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، اس لحاظ سے یہ قوم روزانہ کی بنیاد پر60 لاکھ کے قریب کھانے کے کنٹینر پھینکتی ہیں۔
لیکن اس کچرے اور فالتو اشیاء کو ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی حقیقی ری سائیکلنگ سسٹم موجود نہیں ہے۔ چین میں کچرہ چننے والوں کا ایک نیٹ ورک موجود ہے اور یہ کام زیادہ تر دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ کوڑا کرکٹ میں سے کام کی اشیاء نکالتے ہیں اور شہر سے باہر بڑے بڑے گوداموں میں لے جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ری سائیکلنگ صرف اُسی وقت ہوتی ہے جب یہ منافع بخش ہو۔ پلاسٹک کی بوتلیں اُس وقت ری سائیکلنگ کے قابل نہیں ہوتیں جب تیل کی قیمتیں کم ہوں، کیونکہ تیل کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے کاغذ کی قیمتوں میں بھی اتار چڑھاؤ آتا ہے اور نئی بوتلوں کے مقابلے میں پرانی بوتلیں اپنی لاگت کھو دیتی ہیں۔
لیکن کچرے کے انبار تلے دبی چینی حکومت اب اس رجحان کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ابتداء میں حکومت نے ٹھوس فضلہ پیدا کرنے والی اشیاء کی درآمد پر پابندی لگانی شروع کی، یہ وہ کام تھا، جو 1980 کی دہائی میں شروع ہوا، جب چینی مینوفیکچررز نے سستے خام مال کی تلاش شروع کی۔ گذشتہ برس جب یہ پابندی نافذ العمل ہوئی تو چین ہرسال تقریباً آٹھ لاکھ ٹن کے قریب پلاسٹک کچرا درآمد کر رہا تھا۔
گذشتہ برس کے آغاز پر چینی حکومت نے گھریلو استعمال میں آنے والی پلاسٹک، کاغذ اور کپڑے کے کچرے پر پابندی عائد کی تھی اور اب رواں ماہ سے اس فہرست میں سکریپ دھاتیں، جہازوں کے پرزے اور آٹو پارٹس بھی شامل ہوگئے ہیں۔ چینی حکومت نے رواں برس کے اختتام تک ہر قسم کا فضلہ پیدا کرنے والی اشیاء کی درآمد پر پابندی کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے، سوائے اُن اشیا کے، جن کا متبادل چین میں موجود نہیں ہے۔
لیکن اس کا اُس وقت تک کوئی اثر نہیں پڑے گا، جب تک چین گھریلو طور پر پیدا ہونے والے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے طریقے کو تبدیل نہیں کرتا۔
بیجنگ میں ’گرین پیس‘ کے لیے مہم چلانے والی ایرک لو کے مطابق، ’چین میں ری سائیکلنگ کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے جبکہ یہ فوری حل کیے جانے والا مسئلہ ہے۔‘
ایرک لو کے مطابق: ’حکومت نے بہت سی پالیسیاں اور نعرے بنا رکھے ہیں، لیکن اگر آپ شہر میں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر طرف کچرا بکھرا ہوا ہے، کوئی بھی تبدیلی نظر نہیں آتی، ہمیں ایک نظام کی ضرورت ہے، ایک ایسا نظام جو بہتر طریقے سے چل سکے۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق چینی حکومت قوانین بنانے میں ماہر ہے، لیکن ان ہر عملدرآمد کروانے میں اسے مہارت حاصل نہیں۔
اگرچہ رہائشی علاقوں میں مختلف طرح کے کچرے کے لیے الگ الگ کنٹینرز موجود ہیں، لیکن لوگ پھر بھی انہیں علیحدہ علیحدہ نہیں ڈالتے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ فضلہ اٹھانے والے اسے خود ہی دیکھ لیں گے۔
لیکن بیجنگ میں، جہاں روزانہ 22 ہزار ٹن کے قریب کچرہ پیدا ہوتا ہے، ری سائیکلنگ کے بڑے مراکز یا تو بند کردیے گئے یا پھر انہیں شہر سے باہر منتقل کر دیا گیا کیونکہ حکومت نے دارالحکومت کی آبادی اور زمین پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے کچرہ جلانے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
2017 میں وفاقی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ 2020 کے اختتام تک شہریوں کے لیے کچرے کوعلیحدہ علیحدہ کرنا لازمی قرار دے دی گی اور وہ لوگ جو اپنے کچرے کو الگ الگ کنٹینرز میں نہیں ڈالیں گے، انہیں اس کام کی فیس ادا کرنی پڑے گی۔ حکومت کا مقصد ہے کہ اگلے سال کے اختتام تک بڑے شہروں میں پیدا ہونے والے فضلے کے ایک تہائی حصے کو ری سائیکل کیا جائے۔
چائنا پلاسٹکس پروسیسنگ انڈسٹری ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر آف ری سائیکلنگ فرینک چَین کے مطابق ’رویوں کو تبدیل ہونے میں طویل عرصہ لگے گا، شاید یہ تبدیلی اگلی صدی میں وقوع پذیر ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے لوگوں سے کئی مرتبہ کہا کہ وہ اشیاء کو ری سائیکل کریں اور انہیں ری سائیکلنگ کی اہمیت بھی بتائی لیکن ہماری بات کوئی نہیں سنتا، کسی کو پروا نہیں ہے۔ چینی شہری صرف ایک ہی چیز سمجھتے ہیں اور وہ ہے پیسہ۔‘
تاہم چَین لیون نے اپنی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے 2009 میں اپنی این جی او کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں اور اس کام کا آغاز انہوں نے اُن گاؤں دیہاتوں سے کیا ہے، جہاں وہ پلی بڑھیں۔
چَین کے والد، چَین لیانگیانگ گاؤں میں قائم اپنی بیٹی کے تاثر پر فخر کرتے ہیں، اگرچہ انہیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ ان کی بیٹی کو پورا دن کچرے میں گزارنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’ماضی میں ہر طرف کچرہ ہی نظر آتا تھا۔‘
چَین اور ان کی ٹیم نے گاؤں کے ہر گھر کو 2 بالٹیاں مہیا کر رکھی ہیں۔ زرد بالٹی میں کچرہ جمع کیا جاتا ہے جبکہ سبز بالٹی میں حیاتیاتی فضلہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بوتلیں، گلاس اور پلاسٹک تو پہلے ہی پیسے کے حصول کے لیے ری سائیکل کیے جارہے ہیں۔
ہر روز دن 2 بجے ایک مقامی شخص ایک خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی تین پہیوں والی گاڑی میں کچرہ اکٹھا کرتا ہے جبکہ چَین اپنے برقی میگافون پر گاؤں کے لوگوں کو یہ کہتی سنائی دیتی ہیں کہ وہ اپنے کچرہ دان باہر نکال لیں۔ پھر وہ اور ان کے رضاکار، مقامی لوگوں کو ری سائیکلنگ کے بارے میں بتاتے ہیں اور اُن لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں، جو اب بھی کچرے اور ری سائیکل کے قابل اشیاء کو ایک ساتھ ملا دیتے ہیں۔
مہم کے آغاز میں، پہلے گاؤں میں چَین نے 2 ماہ تک قیام کیا اور لوگوں کو سکھایا کہ کچرے کو کس طرح سے الگ الگ کیا جاتا ہے، لیکن وہ ہر جگہ موجود نہیں ہوسکتیں، لہذا انہوں نے کچھ مقامی افراد اورخواتین کی مقامی تنظیموں کی سربراہوں کو اس کام کے لیے چنا، جو اپنے دستیاب وقت کے مطابق یہ کام کرتے ہیں۔
چَین کی یہ مہم، اس گاؤں کے لیے کچھ نئی ہے، جہاں بڑے بوڑھے اپنا فارغ وقت ’گو‘ کھیلنے میں صرف کرتے ہیں، جو ایک طرح کی چینی شطرنج ہے، یا پھر وہ فٹ پاتھوں اورسیڑھیوں پر بیٹھ کر دنیا کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن یہاں سکیل یعنی پیمانے کا مسئلہ ہے، شیکائی کی کل آبادی 1600 نفوس پر مشتمل ہے، جو کہ چین کی کُل آبادی کا 0.000001 فیصد ہے۔
بہت سارے لوگ اس کام میں حصہ ضرور لینا چاہتے ہیں جبکہ دیگر لوگوں کو ری سائیکلنگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ایک مقامی شہری دوان ہونگ قوان کے مطابق ’ہمیں کچرہ علیحدہ علیحدہ کرنے کا مقصد معلوم ہے لیکن ہمارے گاؤں میں تو گندے پانی کی نکاسی کا نظام بھی موجود نہیں ہے، تو ہم کچرہ ٹھکانے لگانے کے بارے میں کیوں سوچیں؟‘