’کنگ آف بلوچستان‘ امریکہ میں

بااثر قدامت پسند نیوز میکس ٹی وی نے 21 جنوری کو جب سلیمان داؤد کا ایک انٹرویو نشر کیا تو پروگرام کے میزبان نے ان کا بطور ’کنگ آف بلوچستان‘ تعارف کروایا۔ سلیمان نے میزبان کی کسی طرح سے تصحیح کرنے کی بجائے اثبات میں سر ہلا دیا۔

سلیمان کے حالیہ دورہ امریکہ سے لگتا ہے کہ ان کی نظریں کہیں اور مرکوز ہیں۔  (فیس بک)

آزادی پسند بلوچ قبائلی رہنما خان آف قلات سلیمان داؤد ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں جو کسی بھی آزادی پسند بلوچ رہنما کا حالیہ برسوں میں امریکہ کا پہلا دورہ ہے۔

اگرچہ امریکی حکومت نے پچھلے سال بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر یہ تاثر دیا تھا کہ واشنگٹن بلوچستان کی آزادی کی تحریک کی حمایت نہیں کرتا اور اس صوبے کو پاکستان ہی کا حصہ تسلیم کرتا ہے۔ تاہم خان قلات کو ان کے دورہ کے موقع پر امریکی ایوان نمائندگان کے اس ہی سابق رکن ڈینا روہارا باکر کی بھرپور حمایت حاصل ہے جنھوں نے2012 میں   بلوچستان کے معاملے پر ایک سماعت( hearing)منعقد کی تھی اور ایوان ِزیریں میں آزاد بلوچستان کے حق میں تحریک بھی جمع کرائی تھی۔ پاکستان نے اس سماعت اور قرارداد کی بھرپور مخالفت کی تھی۔

’کنگ آف بلوچستان‘

سلیمان داؤد کو ڈینا روہارا باکر امریکی ذرائع ابلاغ اورسیاسی حلقوں میں بلوچستان کے بادشاہ کی صورت میں پیش کر رہے ہیں جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ صدر ٹرمپ کی قدامت پسند جماعت ریپبلکن پارٹی کے انتہا پسند حلقے سے تعلق رکھنے والے چند سابق اراکین کانگریس سلیمان ہی کو آزاد بلوچستان تحریک کے قائد کی صورت میں دیکھنے لگے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھیں اپنے ساتھ ملا کر وہ مستقبل میں اسلام آباد کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

ایک بات جو سلیمان کو دیگر بلوچ آزادی پسند رہنماؤں سے منفرد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا نام براہ راست کسی مسلح تنظیم کے ساتھ نہیں لیا جاتا اور نا ہی ان کی کوئی مخصوص تقریر یا انٹرویو ہے جس میں وہ بلوچ حقوق کے حصول کے لیے پرتشدد طریقوں کے استعمال کی کھلے الفاظ میں حمایت کرتے ہوں۔ سیاسی مقاصد و مطالبات کتنے ہی جائز کیوں نا ہوں، مغربی معاشرے میں مسلح جدوجہد اور پرتشدد کارروائیوں کو زیادہ تر ’دہشت گردی‘ ہی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اہم سیاسی شخصیات خود کو ان افراد اور جماعتوں سے دور ہی رکھتے ہیں جن کا نام کسی نا کسی حوالے سے تشدد کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

ستر ملین امریکی گھرانوں میں دیکھے جانے والی بااثر قدامت پسند نیوز میکس ٹی وی نے 21 جنوری کو جب سلیمان داؤد کا ڈینا روہارا باکر کے ہمراہ ایک انٹرویو نشر کیا تو پروگرام کے میزبان نے ان کا بطور ’کنگ آف بلوچستان‘ تعارف کروایا۔ سلیمان نے میزبان کی کسی طرح سے تصیح کرنے کی بجائے اثبات میں سر ہلا دیا جس سے ان کا اشارہ تھا کہ وہ واقعی بلوچستان کی بادشاہت کے دعویدار ہیں۔

’انتہا پسند ریاستیں‘

خان آف قلات نے اپنے انٹرویو میں ایران اور پاکستان میں مقیم 30 ملین بلوچوں کے حوالے سے کہا: ’ہم دو انتہا پسند ریاستوں (پاکستان اور ایران) کے بیچ میں ہیں اور دونوں دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ وہ میرے لوگوں کو ذبح کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے اور اور ایران کو جوہری معاہدے کے مد میں کروڑوں ڈاالرز دینے پر سابق صدر باراک اوبامہ  پر کڑی نکتہ چینی کی۔ ’آپ کے (امریکی) پیسوں سے پاکستان نے ایٹمی ہتھیار حاصل کئے اور ہماری سرزمین (بلوچستان) پر ایٹمی تجربے کئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈینا روہارا باکر نے سلیمان داؤد کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے پاکستان اور ایران کو امریکہ کا دشمن قرار دیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ناصرف پاکستان امریکہ میں ہونے والے گیارہ ستمبر2001 کے واقعات کا ذمہ دار ہے بلکہ اس نے اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈ اوسامہ بن لادن کو بھی وہاں چھپایا۔

 روہارا باکر نے صدر ٹرمپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’خدا کا شکر ہے کہ اب ہمارے پاس ایک ایسا صدر ہے جو ایران اور ان لوگوں (یعنی پاکستان) سے سختی سے نمٹ رہا ہے جنہوں نے کنگ (سلیمان داؤد) کے لوگوں کو زیرعتاب کیا ہوا ہے اور ہمیں خطرات سے دوچار کیا ہے۔

سلیمان داؤد کون ہیں؟

سلیمان داؤد ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ 2006 کے اواخر میں اس وقت بلوچستان کے سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے جب جنرل مشرف کے دور میں بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کو 26 اگست 2006 کو ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کیا گیا۔

جہاں بگٹی کی ہلاکت کا بلوچستان بھر میں سخت ردعمل آیا وہاں سیاسی حوالے سے گمنام، نسبتا غیرمتحرک اور ناتجربہ کار سلیمان داؤد نے اپنا قبائلی اثررسوخ استعمال کرتے ہوئے بلوچ قبائلی رہنماؤں کا ایک غیرمعمولی جرگہ بلایا۔ اس اجتماع کے بارے میں کہا گیا کہ سو برس میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ اتنے سارے بلوچ قبائلی عمائدین ایک جگہ اکھٹے ہوں۔

اس جرگے میں یہ فیصلہ ہوا کہ سلیمان داؤد عالمی عدالت میں ریاست پاکستان کے خلاف مقدمہ درج کریں گے کہ پاکستان نے بلوچستان پر مبینہ طور پر جبری قبضہ کر کے قلات کی خودمختار حیثیت ختم کر دی ہے۔ سلیمان کے ساتھ جو چیدہ چیدہ سیاسی و قبائلی رہنما اس جرگہ میں شریک تھے وہ یکے بعد دیگرے اس فیصلہ اور وعدہ سے منحرف ہو کر بلوچستان میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہو گئے۔ ان میں سابق گورنر نواب ذولفقار علی مگسی اور سابق وزرائے اعلی نواب اسلم رئیسانی اور سردارثنا اللہ زہری قابل ذکر ہیں۔

سلیمان کی سیاست

اگرچہ قلات جرگہ سے قبل سلیمان کی بلوچستان کی سیاست میں کوئی خاطرخواہ اہمیت نہیں تھی لیکن بلوچستان کے قبائلی ڈھانچہ میں وہ اب بھی انتہائی اہم مقام رکھتے ہیں۔ سلیمان نے جرگے کے بعد جس سیاسی راستے کا انتخاب کیا اس کے بعد ان کا نام آزاد بلوچستان تحریک کے اہم رہنماؤں میں لیا جانے لگا۔ چونکہ وہ بلوچستان کا مقدمہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر عالمی عدالت میں نہ لے جا سکے، اس سےان کی شخصیت کچھ بلوچ قوم پرست حلقوں میں متنازعہ ہوگئی۔

امریکی ایوان نمائندگان کے سابق رکن ڈینا روہارا باکر نے2012 میں بلوچستان کے معاملے پر ایک سماعت منعقد کی تھی اور ایوان ِزیریں میں آزاد بلوچستان کے حق میں تحریک بھی جمع کرائی تھی (اے ایف پی)


انہوں نے ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کے دلوں میں غیرحقیقت پسندانہ توقعات کو جنم تو دیا لیکن انہیں کبھی بھی عملی جامہ نہیں پہنایا۔ دوسری طرف ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بلوچستان میں ایک بڑے نواب کی عیش وعشرت کی زندگی کو ٹھکرا کر بلوچستان کے حقوق کے لیے ایک کٹھن زندگی کا انتخاب کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہتے تو کب کے آزاد بلوچستان کے مطالبہ سے دستبردار ہو کر بلوچستان میں کسی بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہوتے۔

واپسی کے مطالبات

آزاد بلوچستان کے بارے میں سلیمان داؤد کی باتیں کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوں، بلوچستان میں آنے والی مختلف حکومتوں نے بدستور کوشش کی ہے کہ وہ انہیں اپنے موقف سے دستبردار اور وطن واپس آنے کے لیے قائل کریں۔ اس کی ایک وجہ ان کی عمر بھی ہے۔ 2016 کو ان کی اہلیہ کا جلاوطنی ہی میں انتقال ہوا جس پر انہوں نے ایک اخباری انٹرویو میں کہا کہ ’یہ میری زندگی کا ایک بڑا سانحہ ہے۔‘

اکتوبر 2014 کو بلوچستان اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی تھی جس میں حکومت سے سلیمان کو ’باعزت طریقے سے‘ وطن واپس لانے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ وہ  بلوچستان واپس لوٹ کر صوبہ کےحالات بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس سلسلے میں حکومت نے ایک پانچ رکنی شاہی جرگہ بھی تشکیل دیا جس میں بلوچستان اہم سیاسی شخصیات بشمول چار سابق وزرائے اعلی نواب مگسی، سردار اختر مینگل، نواب اسلم رئیسانی اور نواب ثنااللہ زہری اور ایک سابق صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی شامل تھے۔

سابق وزرائے اعلی ڈاکٹر مالک بلوچ اور سردارثنا اللہ زہری نے بھی خان قلات سے برطانیہ میں ملاقاتیں کیں لیکن وہ انہیں اپنے سیاسی موقف سے دستبردار ہونے اور واپس لوٹنے پر راضی کرنے میں ناکام رہے۔

سلیمان کے حالیہ دورہ امریکہ سے لگتا ہے کہ ان کی نظریں کہیں اور مرکوز ہیں۔ وہ بلوچستان میں گورنر یا وزیراعلی  بننے سے زیادہ آزاد بلوچستان کی بادشاہت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جب سے امریکیوں نے حامد کرزئی کو گمنامی سے اٹھا کر افغانستان کا صدر مقرر کیا، تب سے سلیمان جیسے کئی رہنما اپنی باری کے انتظار میں ہیں کہ کیا پتہ کوئی معجزہ ہو، عالمی سیاست میں کوئی بڑا بھونچال آئے اور ان کی قسمت چمک جائے۔

فل الحال تو یہ سب محض دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے لیکن اس کے باجود ان کے اس دورے کی اہمیت کو ا س لیے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ میں ان کی میزبانی رونلڈ ریگن کی سیاست پر یقین رکھنے والے وہی ریپبلکن رہنما ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک میں امریکہ کی ’سوفٹ پاور‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو صدر ٹرمپ، ان کے ووٹرز اور قدامت پسند میڈیا پر خاصا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ