بغاوت کے الزام میں اسلام آباد سے گرفتار مظاہرین کو رہا کرنے کا حکم

’آپ کسی کے محب وطن ہونے پر کیسے شک کر سکتے ہیں؟‘ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا ڈپٹی کمشنر سے سوال۔

اسلام آباد سے گرفتار ہونے والے مظاہرین کی رہائی کے لیے کراچی میں ایک مظاہرہ (سوشل میڈیا)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کے دوران گرفتار کیے جانے والے 23 مظاہرین کو رہا کیا جائے۔

بغاوت اور دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیے گئے افراد کی ضمانت کی درخواست پر پیر کو سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے تمام ملزمان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔

گذشتہ سماعت میں چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر کو طلب کیا تھا۔ پیر کو ڈی آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آئی جی چھٹی پر ہیں جس کی وجہ سے وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکے تاہم ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات سماعت میں موجود تھے۔

چیف جسٹس نے ڈی سی اسلام آباد سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’ڈی سی صاحب آپ سے اور موجودہ حکومت سے یہ توقع نہیں تھی۔‘

انہوں سے استفسار کیا: ’کیا آپ نے ایف آئی آر پڑھی ہے، دہشت گردی کی دفعات کس قانون کے تحت لگائی گئی ہیں؟‘

 چیف جسٹس نے ڈی سی سے سوال کیا کہ آیا انہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہوا ہے جس میں دہشت گردی کی تعریف بیان کی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے مزید کہا: ’آپ کسی کے محب وطن ہونے پر کیسے شک کر سکتے ہیں؟ آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اس کا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آئینی عدالتیں اس معاملے پر آنکھیں بند کر لیں گی؟‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اس مقدمے کی تہہ تک جائیں گئے، اور اگر حکومت نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کو تسلیم کرے۔‘

عدالت نے ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ ڈی سی اسلام آباد اور آئی جی بیٹھ کر اس معاملے کو دیکھیں اور رپورٹ جمع کروایئں جس کے بعد کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے چند پی ٹی ایم ارکان اور مظاہرین کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر سے 28 جنوری کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

حراست میں لیے جانے والے افراد میں رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ بھی شامل تھے، تاہم بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا جبکہ باقی 23 افراد جن میں عوامی ورکرز پارٹی کے کارکنان عمار رشید، نوفل سلیمی، شاہ رکن عالم، سیف اللہ نصر  سمیت باقی افراد شامل تھے۔ ان  پر بغاوت اور دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان