کیا فلسطینیوں کو ’صدی کی سب سے بڑی مکاری‘ سے فائدہ اٹھانا چاہیے؟

عالمی سیاست میں حالات ہر وقت بدلتے رہتے ہیں اور فلسطینی اپنی جدوجہد کو کسی اور مناسب وقت کے لیے موخر کرتے ہوئے اس منصوبے میں شامل ہو کر اپنے لیے ترقی اور مقابلتاً معاشی خوش حالی کا ایک نیا دور شروع کر سکتے ہیں۔

امریکہ کے ’امن‘ منصوبے کے خلاف مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر ہیبرون میں جاری احتجاج میں ایک فلسطینی نوجوان اسرائیلی فوجیوں پر پیٹرول بم پھینکتے ہوئے (اے ایف پی)

امریکہ کی اندرونی سیاست میں دھوکہ دہی، فریب اور ریاکاری کی نئی اور کئی ان گنت مثالیں قائم کرنے کے بعد صدر ٹرمپ کی نظر التفات اب فلسطینی عوام پر پڑی ہے۔

پہلے ہی اسرائیلی مظالم کی چکی میں پسے ہوئے، بےیار و مددگار عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ٹرمپ نے بڑی دھوم دھام سے ایک نئے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ کے داماد اور یہودی نژاد جیرڈ کشنر کو دی گئی جن کا بین الاقوامی سیاست یا مشرق وسطیٰ کے گھمبیر مسائل کے بارے میں رتی برابر تجربہ نہیں ہے۔

اس منصوبے میں فلسطینی رہنماؤں سے کوئی مشورہ یا بات چیت کا تکلف تک نہیں کیا گیا۔ مختصر ترین الفاظ میں، یہ منصوبہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے خواب کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔

منصوبے کے مندرجات اور اس کے اعلان کے لیے چنے گئے وقت سے ایسا لگتا ہے کہ یہ پلان اسرائیل میں سیاسی طور پر محصور وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کو درپیش قانونی مسائل اور اگلے ماہ کے قومی انتخابات میں مدد دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

ساتھ میں یہ منصوبہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کو تہرا فائدہ اس طرح دے گا کہ ایک تو ان کے خلاف مواخذے کی تحریک میں ان کا مددگار ثابت ہو گا، دوسرے آئندہ انتخابات میں ان کو یہودی ووٹ دلانے میں مدد کرے گا اور تیسرا دائیں بازو کے حلقوں میں ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کرے گا۔

توقع کے عین مطابق فلسطینیوں نے ناانصافی اور جارحیت پر مبنی یہ منصوبہ مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے اور صدر محمود عباس نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی منقطع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان حالات میں مشرق وسطیٰ میں امن کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم کا اعلان کہ وہ اس منصوبے پر یکطرفہ طور پر وادی اردن میں اگلے ہفتے سے عمل درآمد شروع کر دیں گے، فلسطین میں مزاحمت کے ایک نئے دور کا پیش خیمہ ہے جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی معاشی مشکلات اور ان پر اسرائیلی مظالم میں اضافہ ہوگا۔

اس کے برعکس یہ صورت حال سیاسی طور پر اسرائیلی وزیر اعظم کے لیے سود مند ثابت ہوگی۔ صد افسوس کہ عرب دنیا اس معاملے میں عوامی سطح پر تو اس منصوبے کو مسترد کر رہی ہے مگر درپردہ اس کا جھکاؤ امریکہ اور اسرائیل کی طرف نظر آتا ہے جس سے اسرائیل کے لیے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیاں جاری رکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

ٹرمپ ’امن‘ منصوبے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

نئی فلسطینی ریاست اسرائیل کے مکمل دفاعی کنٹرول میں ہوگی جس میں ساحلی علاقے اور فضائی حدود بھی شامل ہوں گی۔

 مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) اسرائیل کا دارالخلافہ ہوگا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف اسرائیل کے مکمل کنٹرول میں رہے گا۔

اسرائیل کا وادی اردن اور گولان پر مکمل قبضہ ہوگا اور ان علاقوں میں اور باقی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی قائم شدہ تمام ناجائز آبادیاں قانونی تصور کی جائیں گی اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا راستہ بھی بند کر دیا جائے گا۔

فلسطینی ریاست کو مکمل طور پر نہتا کر دیا جائے گا اور اسے وادی اردن کے معاوضے کے طور پر کچھ صحرائی علاقہ دیا جائے گا۔

فلسطینی ریاست کو کسی دوسرے ملک کے ساتھ دفاعی تعلقات، جن سے اسرائیل کو نقصان پہنچ سکتا ہو، رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی اپنی افواج رکھنے کی اجازت ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کو حماس تنظیم کو غیر مسلح کرنا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تمام شرائط کا مقصد بظاہر ایک کمزور، لاچار اور بےضرر فلسطینی ریاست کو جنم دینا ہے جو اسرائیل کے سامنے دفاعی معاملات میں مکمل سرنگوں رہے اور کبھی بھی اپنے عوام کے حقوق کے لیے اسرائیل کے خلاف نہ کھڑی ہو سکے۔ اس کے برعکس صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے کے مطابق وسیع معاشی و اقتصادی امداد سے وہ فلسطینیوں کے دلوں کے اندر مدتوں سے قائم اسرائیل دشمنی کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ اس منصوبے کے مطابق تقریبا دس لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی جو فلسطینیوں کے دل و دماغ جیتنے کے لیے کافی ہوں گی۔ ان کے خیال میں اگر فلسطینی اس منصوبے کو تسلیم کر لیں تو اگلے 10 سال میں تقریبا 50 ارب ڈالرز کی خطیر رقم نئی فلسطینی ریاست میں ترقیاتی کاموں پر لگائے جائے گی جس سے اس کی قومی آمدنی میں تین گنا اضافہ ہوگا۔

گو کہ یہ ایک ناانصافی پر مبنی منصوبہ ہے اور یکسر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے اور فلسطینی اسے مسترد کرنے میں مکمل طور پر حق بجانب ہیں لیکن حقیقت پسندی اور معروضی حالات کا تقاضہ ہے کہ اس منصوبے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ فلسطینی عوام پچھلے 70 سال سے ایک انتہائی مشکل زندگی گزار رہے ہیں جس کی ختم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ انہوں نے ایک طویل عسکری جدوجہد بھی کی اور مذاکرات کا راستہ بھی اختیار کیا لیکن آزاد فلسطینی ریاست ابھی بھی حد نگاہ میں نہیں ہے۔

حالیہ سالوں میں عرب ممالک کے، جو کہ فلسطینی جدوجہد کی حمایت کرتے آئے ہیں، جوش و جذبہ میں ان کے اپنے سیاسی، علاقائی اور اقتصادی مفادات کی وجہ سے نمایاں کمی آ رہی ہے۔ فلسطینیوں کے غیرعرب دوست یا ہمدرد بھی آہستہ آہستہ سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنی گرمجوشی میں اعتدال لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روس اور بھارت اب پرانے جوش اور ولولے سے فلسطینیوں کی حمایت سے گریزاں ہیں۔

ایسا لگتا ہے جیسے مسلمان اور دیگر ممالک نے فلسطین کو بےیارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ دوسری طرف ایران کی بھرپور حمایت فلسطینیوں کے لیے بین الاقوامی طور پر مسائل اور شکوک میں اضافہ کر رہی ہے۔ فلسطین کی معیشت بھی اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا شکار ہے جس سے عام فلسطینیوں کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آ رہی ہے اور نہ ہی عام فلسطینی کسی طرح کے بہتر مستقبل کے بارے میں پرامید ہے۔

موجودہ حالات میں کسی بھی بہتری کے امکانات نظر نہیں آرہے اور نہ ہی آپس میں منقسم مسلمان ممالک فلسطینیوں کی بدقسمتی کو ختم کرنے کے لیے متحد ہیں تو فلسطینیوں کو اپنے اصولوں کو چھوڑے بغیر اور اپنے حتمی مقصد کے حصول کے لیے اپنی حکمت عملی بدلنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی سیاست میں حالات ہر وقت بدلتے رہتے ہیں اور فلسطینی اپنی جدوجہد کو کسی اور مناسب وقت کے لیے موخر کرتے ہوئے اس منصوبے میں شامل ہو کر اپنے لیے ترقی اور مقابلتاً معاشی خوش حالی کا ایک نیا دور شروع کر سکتے ہیں۔

اس منصوبے کے تحت فلسطینی ریاست مکمل آزاد تو نہیں ہوگی لیکن اسے اپنے اندرونی معاملات چلانے اور اپنی معاشی حالات بہتر بنانے کی بہت آزادی ہوگی جس میں انہیں اپنے علاقوں میں آزادانہ سفر، تعمیری سرگرمیاں اور معاشی پیداوار بڑھانے کے وسیع مواقع میسر ہوں گے۔ اس معاشی سفر میں انہیں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی مالی مدد بھی حاصل ہوگی۔ یہ منصوبہ فلسطین کے مسئلہ کا پسندیدہ حل تو نہیں ہوگا لیکن یہ معاشی اور سماجی ترقی کی طرف ایک راستہ ہو سکتا ہے۔ اقتصادی طور پر مضبوط فلسطین مستقبل میں بہتر طریقے سے اسرائیل سے مذاکرات اور اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے گا۔

امریکہ کو چاہیے کہ اگر وہ اس منصوبے کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے تو اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے فلسطینیوں سے سنجیدہ مذاکرات شروع کرے۔ امریکہ فلسطینیوں کے تمام خدشات کو تو دور نہیں کر سکے گا مگر وہ ایک دیانتدار مذاکرات کار کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے تحفظات میں بدرجہ کمی لانے کی کوشش تو کرسکتا ہے۔ یہ منصوبہ تبھی کامیاب ہوسکتا ہے اگر تمام فریق کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر تعاون کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ