سرعام پھانسی کی قرارداد ایوان میں منظور، باہر مخالفت

گذشتہ دنوں بچوں سے زیادتی کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینےکی قرارداد ایوان میں منظور تو ہوگئی لیکن ایوان سے باہر اپوزیشن جماعتیں اور حکومتی وزرا بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

نوید قمرکے مطابق  اس قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں (اے ایف پی)

پاکستان کی پارلیمنٹ میں گذشتہ دنوں حکومتی وزیر علی محمد خان کی جانب سے بچوں سے زیادتی کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینےکی قرارداد پیش کی گئی جو منظور تو ہو چکی ہے لیکن اس کے بعد نہ صرف اپوزیشن جماعتوں بلکہ حکومتی وزرا نے بھی اسے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔

سیاسی رہنماؤں کے مطابق اس طرح کی قرارداد سے عالمی سطح پر پاکستان کو انتہا پسند سوچ رکھنے والا ملک سمجھا جائے گا۔ ان کے خیال میں زیادتی کرنے والے مجرموں کے لیے پہلے سے قوانین موجود ہیں اور نئے قانون کی ضرورت نہیں۔

ان رہنماؤں کے خیال میں سرعام پھانسی جیسے اقدام سے جرائم کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے قوانین پر عمل درآمد اور معاشرتی سوچ میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

سابق وفاقی وزیر نوید قمر کا کہنا ہے کہ اس قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، علی محمد خان نے سیاسی طور پر شہرت کے لیے قرارداد کے ذریعے پوئنٹ سکورنگ کی۔

اپوزیشن جماعتیں قرارداد کی مخالف کیوں؟

سابق وفاقی وزیر اور رہنما پیپلز پارٹی نوید قمر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی وزیر علی محمد خان نے اچانک پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کی جس میں بچوں سے زیادتی کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ایوان میں اراکین کم تعداد میں موجود تھے اور جذباتی طور پر بیشتر نے اس کے حق میں ووٹ دیا لیکن پیپلز پارٹی اس کی مخالف ہے کیونکہ ’ہم عالمی سطح پر بنیادی انسانی حقوق سے متعلق طے شدہ ضابطوں کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سرعام پھانسی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ’مہذب معاشروں میں تو پھانسی کو ہی ناپسند کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے بعض اراکین نے بے شک اس قرارداد کی ایوان میں حمایت کی لیکن بطور جماعت اس اقدام کے مخالف ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق خصوصی عدالت کی جانب سے جنرل (ر) پرویز مشرف کو ’گھسیٹ کر سرعام پھانسی دینے کا فیصلہ بھی درست نہیں تھا کیونکہ مجرم کی بطور انسان تذلیل کی ہمارا قانون بھی اجازت نہیں دیتا۔‘

اسی بارے میں مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی چوہدری برجیس طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک وزیر کسی بھی وقت قرارداد ایوان میں پیش کرسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرارداد پاس ہونے کے بعد اس پر عمل بھی ہو۔

چوہدری برجیس طاہر کہتے ہیں کہ ’ہمارے ملک سے متعلق پہلے ہی عالمی دنیا کو خدشات ہیں اور اس طرح کے اقدام ان خدشات کو تقویت دیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے اسے پہلے ہی مسترد کر دیا تھا اور ویسے بھی اس قرارداد پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیا ہی نہیں گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے اقدامات کر رہی ہے جبکہ ہماری حکومت اس طرح کے رویے سے یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ ہم سویلائزڈ معاشرے کی نفی کرتے ہیں۔

حکومتی وزرا بھی اس معاملے میں ایک پیج پر نہیں

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی جانب سے پیش کی گئی اس قرار داد کی وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کھل کر مخالفت کی ہے۔

شیریں مزاری نے اپنے بیان میں یہاں تک کہا کہ سرعام پھانسی کی قرارداد حکومتی قرارداد نہیں تھی۔ اس کی منظوری میں ارکان نے پارٹی لائن سے ماورا ہو کر ووٹ دیے۔ ’ہم میں سے بہت سے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔‘

اسی طرح وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی سرعام پھانسی سے متعلق قرارداد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے قوانین تشدد پسندانہ معاشروں میں بنتے ہیں یہ انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

پارلیمنٹ سے زیادتی کے مجرم کو سرعام پھانسی کی قرارداد منظور ہونے پر سوشل میڈیا پر بھی شہریوں نے کھل کر رائے دی اور ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بھی بنے جن میں بیشتر شہریوں نے اس اقدام کو عالمی سطح پر ملکی تاثر کے خلاف قرار دیا جبکہ بعض نے اسے زیادتی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے بہترین قانون قرار دیا لیکن روشن خیال افراد نے مثال دی کہ پھانسی کے باوجود پاکستان میں سنگین جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

ان صارفین کا کہنا ہے کہ زینب زیادتی کیس کے مجرم عمران کو پھانسی کے باوجود ضلع قصور میں ہی کئی واقعات اس کے بعد بھی پیش آئے لہذا ایسے جرائم پر قابو پانے کے لیے مجموعی معاشرتی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

زینب الرٹ بل کی منظوری

 قومی اسمبلی نے قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی کے نام سے پیش کیے گئے زینب الرٹ بل کو گذشتہ ماہ متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ زینب الرٹ بل کا اطلاق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر ہوگا، وزیراعظم کی طرف سے لاپتہ بچوں کے حوالے سے ایک ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا جائے گا جبکہ ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ افسران اور اہلکار بھی تعینات کیے جائیں گے۔

بل کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل زینب الرٹ، رسپانس و ریکوری بچوں کے حوالے سے مانیٹرنگ کا کام کرے گا اور ہیلپ لائن 1099 کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان