بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی کی قرارداد منظور

تحریک انصاف حکومت نے وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد سے خود کو دور رکھتے ہوئے اسے بعض پارٹی اراکین اسمبلی کی ’ذاتی کوشش‘ اور ’عمل‘ قرار دیا ہے۔

ہاتھ سے لکھی ہوئی اس قرارداد میں حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی گئی آٹھ سالہ عوض نور کا ذکر کیا گیا۔  (تصویر: قومی اسمبلی فیس بک پیج)

پاکستان کی قومی اسمبلی نے بچوں سے جنسی زیادتی اور انہیں قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور کر لی ہے۔

تاہم تحریک انصاف حکومت نے اس قرارداد سے خود کو دور رکھتے ہوئے اسے بعض پارٹی اراکین اسمبلی کی ’ذاتی کوشش‘ اور ’عمل‘ قرار دیا ہے۔

جمعے کے روز ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیرِصدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے مذکورہ قرارداد ایوان کے سامنے پڑھ کر سنائی اور اسے منظوری کے لیے پیش کیا۔

ہاتھ سے لکھی ہوئی اس قرارداد میں حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی گئی آٹھ سالہ عوض نور کا ذکر کیا گیا۔

قرارداد کے مطابق: ’یہ ایوان عوض نور کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے بچوں کی شرمناک اور وحشیانہ قتل و غارت گری کو روکنے اور ایسے واقعات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ قاتلوں اور جنسی زیادتی کرنے والوں کو نہ صرف پھانسی کی سزا دی جائے بلکہ انہیں سرعام پھانسی دی جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے قرارداد پر رائے شماری کرائی اور اسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی نے سرعام پھانسی کی مخالفت کی۔

سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اس موقع پر کہا کہ اقوامِ متحدہ کے قوانین کے تحت کسی کو سرعام پھانسی نہیں دی جاسکتی اور پاکستان اقوام متحدہ کے بہت سارے کنونشنز کا دستخط کنندہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سزائیں یا ان کی شدت کو بڑھانے سے جرائم کم نہیں ہوتے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ مذکورہ قرارداد حکومت کی جانب سے پیش نہیں کی گئی۔

ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں شیریں مزاری نے لکھا: ’قومی اسمبلی میں منظور ہرنے والی سرعام پھانسی سے متعلق قرارداد (تحریک انصاف) حکومت کی پارٹی پالیسی کے خلاف ہے۔ یہ (پیش کرنے والے کا) ایک ذاتی عمل ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بدقسمتی سے وہ ایک اجلاس میں مصروف تھیں، جس کے باعث قومی اسمبلی کے جمعے کے اجلاس میں شریک نہ ہو سکیں۔‘

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے بھی قرارداد میں سر عام پھانسی کی مذمت کی۔

انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا: ’ظالمانہ تہذیب کے رواج کے مطابق یہ ایک اور سنگین فعل ہے۔ معاشرے متوازن انداز میں کام کرتے ہیں۔ بربریت جرائم کا جواب نہیں ہے۔ یہ انتہا پسندی کا ایک اور اظہار ہے۔‘

فواد چوہدری نے ایک الگ ٹویٹ میں کہا: ’دنیا کی تاریخ میں یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ اس طرح کی سزائیں قبائلی معاشروں میں ہوتی ہیں جہاں انسان اور جانور ایک برابر ہیں۔ مہذب معاشرے مجرموں کو سزا سے پہلے جرم روکنے کی تدبیر کرتے ہیں۔اس طرح کی سزاؤں سے معاشرے بے حس ہو جاتے ہیں اور سزا اپنا اثر کھو دیتی ہے۔‘

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ساحل کے اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ سال جنوری سے جون کے درمیان ملک میں 1300 سے زیادہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔

تاہم قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد سے قطعاً مراد نہیں کہ یہ قانون بن گیا ہے۔قانون بنانے کے لیے اس کے مسودے کا قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونا ضروری ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مذمت

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کے حوالے سے قرارداد کی منظوری کی مذمت کی ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں جنوبی ایشیا کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمر چیمہ نے کہا: ’بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل سب سے زیادہ بھیانک جرائم میں سے ایک ہے تاہم سزائے موت اس کا حل نہیں ہے۔ سرعام پھانسی دینا ناقابل قبول اور ظالمانہ کارروائی ہے اور مہذب معاشرے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔‘

انہوں نے کہا کہ حکام کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں بچوں کو زیادتی سے بچانے کے لیے سخت پالیسییوں اور ان پر عمل درآمد کے ذریعے تحفظ فراہم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔

عمر چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ جنسی زیادتی کے خلاف قانون نافذ کرنے اور ایسے مجرموں کو منصفانہ ٹرائلز کے ذریعے سزا دینا ضروری ہے تاہم اس کے لیے سزائے موت کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔ ’سرعام یا دیواروں کے پیچھے سزائے موت دینے سے انصاف نہیں ملتا۔ یہ انتقام کی کارروائیاں ہیں اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایسی سزائیں (جرم کی روک تھام کے لیے) موثر ثابت ہوتی ہیں۔ اگر انسانی زندگی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے تو پھر اسے چھین لینا سب سے کم تر عمل ہے۔ ریاست کو لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار کر تشدد کے دائرے کو جاری نہیں رکھنا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان