کشمیر آغاز تھا، کہا تھا کہ جن بوتل سے نکلا تو خونریزی بڑھے گی: عمران خان

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ ایک مرتبہ جن بوتل سے نکل آیا تو خونریزی میں شدت آئے گی۔

وزیر اعظم  نے اپنے ٹویٹ پیغام میں مزید لکھا ’آگاہ رہو! پاکستان میں اگر کسی نے بھی غیر مسلم شہریوں پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی یا کسی عبادت گاہ کی جانب بری نظر سے دیکھا تو نہایت سختی سے پیش آئیں گے۔(اے ایف پی)

بھارت کے درالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے جبکہ شہر میں فسادات سے متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے اپنے تین ٹویٹ پیغامات میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’آج ہم جوہری صلاحیت کی حامل 1 ارب سے زائد انسانوں پر مشتمل ریاست بھارت کو نازی ازم کی وارث آر ایس ایس کے ہاتھوں میں گرتا دیکھ رہے ہیں۔ نفرت کی بنیاد پر نسل پرستانہ نظریات کا حامل گروہ جب بھی غالب آتا ہے، قتل و غارت گری اور خونریزی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں میں نے پیش گوئی کی تھی کہ ایک مرتبہ جن بوتل سے نکل آیا تو خونریزی میں شدت آئے گی۔ کشمیر آغاز تھا، آج ہندوستان میں مقیم 200 ملین (20 کروڑ) مسلمان نشانے پر ہیں۔ عالمی برادری کیلئے کچھ کرنے کا بلاشبہ یہی وقت ہے۔‘

انہوں نے اپنے ٹویٹ پیغام میں مزید لکھا ’آگاہ رہو! پاکستان میں اگر کسی نے بھی غیر مسلم شہریوں پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی یا کسی عبادت گاہ کی جانب بری نظر سے دیکھا تو نہایت سختی سے پیش آئیں گے۔ ہماری اقلیتیں اس ملک کی برابر کی شہری ہیں۔‘

دوسری جانب بھارت کی سرکاری نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے اپنی ایک ٹویٹ میں گرو تیغ بہادر (جی ٹی بی) ہسپتال کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ دہلی میں جاری فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 20 ہو گئی۔

بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق منگل کو متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں اور ان کی مخالفت کرنے والے ہندو گروہوں کے کارکنوں کے درمیان تصادم، پتھراؤ، آتش زدگی اور توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے۔ رپورٹ کے مطابق شمال مشرقی دہلی میں 24 گھنٹوں کے دوران ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔

’دا ہندو‘ کے مطابق بدھ کی صبح چار مزید لاشوں کو جی ٹی بی ہسپتال لایا گیا۔

ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں نے ’دا ہندو‘ کو بتایا ہے کہ زیادہ تر اموات بندوق کی گولیوں کے زخموں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔

منگل کی شب دہلی کے علاقوں موج پور، جعفرآباد، چاند باغ اور کارول نگر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ شمال مشرقی دہلی کے کچھ علاقوں میں بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔

پولیس ذرائع نے ’دا ہندو‘ کو بتایا کہ شورش زدہ علاقے میں متنازع شہریت قانون کے خلاف جاری دھرنے کو ’صاف‘ کردیا گیا ہے۔

اس دوران دہلی کے وزیراعلیٰ ارویند کیجریوال نے وفاقی وزیر داخلہ امت شاہ سے دارالحکومت میں امن کی بحالی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

بعد میں ایک ٹویٹ میں دہلی کے وزیراعلیٰ نے صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے فوج کو بلانے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے لکھا: ’میں پوری رات لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہا ہوں۔ صورت حال تشویش ناک ہے۔ پولیس اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ فوج کو طلب کیا جائے اور فوری طور پر متاثرہ علاقوں کے باقی حصوں میں بھی کرفیو نافذ کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں وزیر داخلہ کو خط لکھ رہا ہوں۔‘

بھارتی حکومت ان فسادات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور بھارتی میڈیا کو تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ سے روک دیا گیا ہے۔

’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق مودی حکومت نے نیوز چینلز کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسے مواد کو نشر کرنے کے بارے میں محتاط رہیں جس نے تشدد کو ہوا دی اور ملک دشمن رویوں کو فروغ دیا۔

بھارتی نیوز ویب سائٹ سکرول ڈاٹ اِن نے اپنی ایک رپورٹ میں ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ایک بلوائی کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ دہلی پولیس ہندو بلوائیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اس ہندو کارکن کو ’جے شری رام‘ اور ’دہلی پولیس زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے بھی سنا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے رپورٹ کیا تھا کہ مشتعل ہندو گروہوں کے کارکنوں نے منگل کو کلہاڑیوں اور لوہے کی راڈز کے ساتھ دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہلہ بول دیا۔

منگل کو یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہو رہے تھے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شہر کے دوسرے حصے میں بھارت کے ساتھ تین ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر مذاکرات کر رہے تھے۔ بعدازاں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ تشدد کے ان واقعات کے بارے میں سن رہے ہیں تاہم انہوں نے وزیراعظم مودی سے اس حوالے سے بات نہیں کی۔   

اے پی کے مطابق بھارتی دارالحکومت کے مسلم اکثریتی علاقے بھائی جان پورا میں دھویں کے سیاہ بادل دیکھے گئے، جہاں مشتعل ہجوم نے سبزیوں کی دکانوں کو آگ لگا دی اور مسلمانوں کے ایک مقدس مزار (مسجد) کو بھی نذر آتش کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی نیوز ویب سائٹ ’دا وائر‘ کے مطابق منگل کی سہ پہر کو دہلی کے علاقے اشوک وہار میں ایک مسجد کو نذر آتش کیا گیا۔ جلتی ہوئی مسجد کے مینار پر ہجوم نے ہنومان کے پرچم لہرا دیے اور ’جے شری رام‘ اور ’ہندوؤں کا ہندوستان‘ کے نعرے لگائے۔

مسجد کے احاطے کے اندر اور آس پاس کی دکانوں کو بھی لوٹ لیا گیا۔ مقامی لوگوں نے ’دا وائر‘ کو بتایا کہ اگرچہ جائے وقوعہ پر فائر فائٹرز کے کچھ اہلکار موجود تھے لیکن پولیس نظر نہیں آ رہی تھی۔

مقامی لوگوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے مسلم برادری کے افراد کو علاقے سے ہٹا دیا ہے۔

دہلی میں فسادات اور تشدد ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب حکمران ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے دہلی پولیس کو ’الٹی میٹم‘ دیا تھا کہ متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین سے جعفرآباد اور چاند باغ کو تین دن کے اندر خالی کرا لیا جائے ورنہ وہ خود سٹرکوں پر آ جائیں گے۔

رپورٹس کے مطابق بہت سے علاقوں میں پولیس پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے میں ہندوتوا کے حامی گروپوں کا ساتھ دے رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا