طالبان بھی وہیں اور انٹرنیٹ بھی نہیں، قبائلی علاقوں میں بدلا کیا؟

2020 کے پہلے تین مہینوں کو دیکھتے ہوئے آنے والے نو ماہ میں بھی اچھے حالت آنے کی اُمید نظر نہیں آرہی ہے۔

(تصویر: دلاور خان وزیر)

قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کے بعد بھی وزیرستان میں خوف کی فضا بدستور موجود ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف عام شہری پریشان ہیں بلکہ طلبا بھی بُری طرح متاثر ہورہے ہیں۔

ضرب عضب کی دوسالہ جنگ کے بعد سکیورٹی فورسز نے کہا تھا کہ جنگ کی کامیابی نئی نسل کے لئے مشعل راہ رہے گی اور ہمت بہادری اور قُربانیوں کی لازوال داستان تاریخ میں ہمشہ جگمگائے گی اور ملک دُشمنوں کو واپس نہیں آنے دیں گے۔

لیکن 2020 کے پہلے تین مہینوں کو دیکھتے ہوئے آنے والے نو ماہ میں بھی اچھے حالت آنے کی اُمید نظر نہیں آرہی ہے۔

اگرچہ تحریک انصاف پاکستان کی صوبائی حکومت روزانہ کے حساب سے قبائلی اضلاع کے لیے کسی نہ کسی طرح اچھی خبروں کی اُمیدیں دلاتی رہتی ہے مگر وہاں کے حالات کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت کی اچھی خبریں صرف بیانات تک محدود ہیں اور عملی طور پر کچھ خاص نہیں۔

شمالی وزیرستان میں تین دن پہلے سابق ممبر قومی اسمبلی محمد نذیر کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ بال بال بچ گئے۔ گاڑی کو بھی کافی نقصان پہنچا۔

محمد نذیر پر حملے کے دوسرے دن میرعلی کے علاقے میں پولیس کی گاڑی پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک پولیس محرر رحیم نواز ہلاک ہو گیا۔

اس طرح جنوری کے مہینے میں تحصیل دتہ خیل میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو قبائلی ملک ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد سے کئی دنوں تک شہریوں نے احتجاجی مظاہرے کیے مگر حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود ایک واقعے کی تحقیقات میں بھی تاحال کسی قسم کی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب جنوبی وزیرستان میں پولیس نے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کو خبردار کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سجنا گروپ نے ان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے طالبان نے علی وزیر کے والد سمیت پانچ آفراد کو 2005 میں قتل کردیا تھا۔

پولیس کے اس بیان پر علی وزیر نے کہا کہ اگر ان کو کچھ نقصان پہنچا تو ذمہ دار حکومت ہوگی اور طالبان نے بھی علی وزیر کو دھمکی دینے کی تردید کر کی ہے۔

اس طرح کروناوائرس کے باعث پاکستان میں تمام تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے قبائلی اضلاع کے تمام طلبا اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں اور تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچنے کے لیے تمام تعلیمی اداروں نے طلبا کو آن لائن کلاسز کے ذریعے سیشن جاری رکھنےکا نوٹفیکشن دے دیا ہے۔

لیکن وزیرستان میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وانا میں طلبا نے تین دن پیشتر انٹرنیٹ سروسز کی بحالی کے لیے احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے جو تاحال جاری ہیں۔

طلبا کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کے لیے فوری طور پر انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے یا خیبر پختونخوا میڈیکل فیکلٹی انٹرنیٹ کی بحالی تک کلاسوں کو موخر کردے۔

اسسٹنٹ کمشنر امیر نواز کے مطابق وانا میں دو کمپنیوں کی سم کام کر رہی ہیں لیکن تھری جی اور فور جی کو بحال کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ تاہم انہوں نے احتجاجی مظاہروں کی رپورٹ صوبائی حکومت کو ارسال کر دی ہے۔ امیر نواز کے مطابق سکیورٹی خدشات کی وجہ سے انٹرنیٹ کو بند رکھا گیا ہے۔

دوسری جانب علی وزیر نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز کے اداروں کی طرف سے ان کو شدت پسند تنظیم کی دھمکیوں کے پیغام دینا تو اس بات کا اعتراف کہ شدت پسند علاقے میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کے ادارے اب بھی علاقے میں لوگوں کو اندھیرے میں رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ جب چاہے ان کو استعمال کرسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وانا میں گزشتہ تین دنوں سے پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے احتجاج کرنے پرمجبور ہیں کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے یونیورسٹیاں بند ہیں اور تعلیمی سلسلہ آن لائن جاری ہے۔

علی وزیر کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ صرف علاقے کے لوگوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنا ہے تاکہ لوگ دُنیا کی معلومات سے بے خبر رہیں اور شعور و آگاہی نہ ہوں۔

جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات اور شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے بعد بھی شہری پُرامن زندگی گزارنے اور امن و امان کی فضا نہ دیکھ سکے جس کی وجہ سے اب بھی یہاں کی پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی اپنے علاقوں سے دور دوسرے شہروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان