حاملہ خواتین کو کرونا وائرس سے بچنے کے لیے کیا احتیاط کرنی چاہیے؟

کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے پریشنان والدین گھروں میں ڈیلیوری کروانے پر غور کر رہے ہیں، تاہم ڈاکڑوں نے اس کے خلاف سختی سے تاکید کی ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ نائمہ اور 29 سالہ عارف کی شادی کو ڈیڑھ سال ہوچکے ہیں۔ نائمہ حمل کے نویں ماہ میں ہیں اور اگلے مہینے ان کی ڈلیوری ہے۔ عام طور پر پہلے بچے کی پیدائش کے وقت والدین انتہائی فکرمند اور محتاط ہوتے ہیں لیکن اس بار یہ دونوں میاں بیوی ایک الگ ہی الجھن اور تشویش میں مبتلہ ہیں۔

نائمہ اور عارف کی رہائش کراچی کے ضلع وسط میں ہے جہاں کرونا (کورونا) وائرس کے کیسز کی دوسری بڑی تعداد موجود ہے۔ نائمہ کا کہنا ہے ان کے خاندان میں آج تک کسی خاتون کی گھر پر ڈلیوری نہیں ہوئی لیکن وہ اور ان کے شوہر خوفزدہ ہیں کہ اگر ہسپتال گئے تو کہیں ان کے نوزائیدہ بچے کو کرونا وائرس نہ ہو جائے اس لیے وہ گھر پر ڈلیوری کرنے کے خیال پر غور کر رہے ہیں۔

آج کل شہریوں میں اس طرح کی سوچ کا پائے جانا انتہائی عام ہے۔ مارچ سے حکومت کی جانب سے سماجی پابندیاں لگائے جانے کے بعد پاکستان کے کئی ہسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریضوں کی موجودگی کے باعث وارڈز اور او پی ڈیز بھی بند ہیں۔ اب وفاقی حکومت نے موجودہ حالات کے پیشِ نظر 30 اپریل تک لاک ڈاؤن میں توسیع کردی ہے۔

ان حالات میں کیا گھر پر ڈلیوری ماں اور بچے لے لیے محفوظ ہے؟ اگر ہسپتال میں ڈلیوری کی جائے تو کیا ہسپتالوں میں حاملہ خواتین اور ان کے نوزائیدہ بچوں کے تحفظ کے لیے تسلی بخش اقدامات کیے گئے ہیں؟ بچے کی پیدائش کے بعد اسے دودھ پلانے میں ماں کو اب کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟ ان سوالوں کے جوابات جاننا بہت ضروری ہے۔

اس حوالے ہم نے کراچی کے جناح ہسپتال میں گائناکالوجسٹ کے فرائض انجام دینے والی ڈاکٹر آصفہ ملہان سے بات کی۔

ان کے مطابق جناح ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر چالیس سے پچاس ڈلیوری کے کیسز آتے ہیں جن میں دس سے پندرہ سی سیکشن کے کیسز ہوتے ہیں۔ جناح ہسپتال کے زچہ و بچہ وارڈ میں تقریباً بارہ بیڈز ہیں۔ لوگوں کی امد و رفت کم کرنے کے لیے اس وارڈ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔

احتیاطی تدابیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ان کا کہنا تھا: ’جو حاملہ خواتین اپنے گھروں پر ہیں انہیں کرونا وائرس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر ان کے گھر میں کسی کو بھی کرونا وائرس ہو یا کسی میں علامات ظاہر ہو رہی ہوں تو فوری طور پر انہیں فاصلہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر آصفہ ملہان کا مزید کہنا تھا: ’اگر کسی خاتون کا پانچواں مہینہ ہو یا آخری مہینہ چل رہا ہو، تو انہیں تب تک ہسپتال آنے کی ضرورت نہیں ہے جب تک ان کی ڈلیوری کا پلین نہ ہو۔ کسی بھی قسم کی تکلیف کے حوالے سے فون پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے بہتر ہے۔‘

موجودہ حالات کے پیشِ نظر گھر پر ڈلیوری کرنے پر غور کرنے کے حوالے سے جب ہم نے ڈاکٹر آصفہ کی رائے جاننا چاہی تو انہوں نے اس عمل کی سختی سے مذمت کی اور ہر حال میں ہسپتال میں ڈلیوری کروانے کی ہدایت دی۔

ڈاکٹر آصفہ کا کہنا تھا: ’میں اس بات کے بالکل حق میں نہیں ہوں کہ گھر پر ڈلیوری کی جائے کیوں کہ ڈلیوری سے قبل یا اس کے دوران کسی بھی قسم کی غیر متوقع پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں، جنہیں گھر میں حل نہیں کیا جاسکتا۔‘

اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کچھ روز قبل ہسپتال میں ڈلیوری کے لیے ایک خاتون آئیں جنہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور ان کا کافی خون بھی بہہ چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے نہ صرف ڈلیوری سے قبل فوری طور پر انہیں خون چڑہایا بلکہ ان کا اور بچے کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ بھی کیا جو ڈلیوری کے دو دن بعد منفی آیا۔ تاہم ٹیسٹ کا نتیجہ آنے تک یہ دونوں ہسپتال میں ہی ایڈمٹ رہے۔

ڈاکٹر آصفہ کا مزید کہنا تھا: ’خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈلیوری کے وقت ماسک ضرور پہنیں، چاہے ان میں علامات ظاہر ہوں یا نہیں۔‘

گائناکالوجسٹ ڈاکٹر آصفہ ملہان نے بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤں کو خاص طور پر احتیاظ کرنے کی تلقین کی ہے۔

ان کے مطابق: ’مائیں بچوں کو فیڈ کروانے سے پہلے اچھی طرح جسم کے اس حصے کو صاف کریں۔ اگر وائرس کی علامات ظاہر ہورہی ہیں تو وہ ماسک ضرور پہنیں، اگر علامات ظاہر نہیں ہو رہیں تو مسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’علامات ظاہر ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے فون پر لازمی طور پر رجوع کریں کیوں کی بچے کی پیدائش کے بعد احتیاط بہت ضروری ہے۔‘

بچوں کو وائرس سے خطرہ

بین الاقوامی میڈیکل جریدے ’دا لینسیٹ‘ میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق چین کے شہر ووہان میں نو حاملہ خواتین، جن میں کرونا وائرس کی معمولی علامات تھیں، پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ایک بچے کا ٹیسٹ مثبت آیا لیکن باقی تمام نوزائیدہ بچوں کا ٹیسٹ منفی تھا۔

معاملے کی تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کی جس بچے میں ٹیسٹ مثبت آیا تھا اسے پیدائش کے بعد اپنی والدہ سے کرونا وائرس لگا تھا۔ سائنسدانوں نے اس تحقیق سے یہ نتیجہ حاصل کیا کہ پچے کی پیدائش چاہے نارمل ڈلیوری سے ہو یا سی سیکشن ہے، پیدائیش کے وقت یہ وائرس ماں سے بچے میں منتقل نہیں ہوتا تاہم اس کے بعد رابطے میں ہو سکتا ہے۔

بچوں کے امراض سے منسلک امریکی میڈیکل جرنل ’پیڈیاٹرکس‘ میں شائع کی گئی ایک اور تحقیق کے مطابق یہ وائرس نوزائیدہ بچوں میں اس لیے منتقل نہیں ہوتا کیوں کہ یہ انسانی خلیوں میں ایک مخصوص پروٹین ’اے سی ای ٹو‘ سے خود کو جوڑ لیتا ہے جو نوزائیدہ بچوں کے خلیوں میں یا  تو موجود ہی نہیں ہوتا یا پھر اس کی شکل مختلف ہوتی ہے۔

البتہ اس تحقیق میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ بارہ مہینے یا اس سے بڑی عمر کے بچوں کو انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا سانس کا نظام اور جسم کے دیگر نظام تیزی سے ترقی کر رہے ہوتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین