کٹاس راج کا تالاب آنسوؤں سے بھرنا اچھا ہے یا؟

روایت ہے کہ شیو کو اپنی بیوی ستی سے بہت محبت تھی۔ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا تصور محال تھا۔ سچ ہے کہ زندگی میں محبت کی چاشنی ہی اس کو خوبصورت بنا دیتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے سفر میں مسافر ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں۔

کتنے ہی دیوانے تاریخ کے چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش میں یہاں گھومتے رہے (فیس بک)

یہ کٹاس راج ہے۔

اسلام آباد سے دو گھنٹے کی مسافت پر چکوال میں واقع ایک تاریخی مقام جہاں ہزاروں سال پہلے کی تاریخ سانس لے رہی ہے۔ سطحِ سمندرسے تقریباً اڑھائی ہزار فٹ بلند اس جگہ پر بنے ہوئے مندر اور ان سے ملحق حویلیاں دور سے ہی نظر آجاتی ہیں۔

کبھی یہ جگہ علم و فن کا مرکز تھی۔یہاں ایک قدیم یونیورسٹی تھی جہاں اور علوم کے علاوہ سنسکرت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مشہور مسلمان ماہرِ ارضیات، ریاضی، تاریخ اور نجوم ابو ریحان البیرونی نے کٹاس راج میں واقع اسی یونیورسٹی میں سنسکرت کی تعلیم حاصل کی تھی۔

یہ البیرونی ہی تھا جس نے کٹاس راج سے کچھ ہی دور پنڈ دادن خان کے مقام نندہ میں کئی سو سال پہلے زمین کے محیط اور قطر کی درست پیمائش کی تھی۔ یہاں مندروں کے قریب ایک بدھ سٹوپا کے بھی آثار ہیں جو بدھ پیروکاروں کی عقیدت کا مظہر اور بین المذاہب تعلق کا آئینہ دار ہے۔

کتنے ہی دیوانے تاریخ کے چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش میں یہاں گھومتے رہے۔ انہیں میں ایک دیوانہ احمد حسن دانی تھا۔ وہی پروفیسر دانی جس نے پاکستان کے دیگر علاقوں کے علاوہ کٹاس راج کے حوالے سے تحقیق کی۔ پروفیسردانی کے مطابق کٹاس راج کی ایک اہمیت یہ بھی تھی کہ یہاں ہندوؤں کے چار وید تحریر کئے گئے۔

کہتے ہیں کہ جب پانڈو برادران کو جلاوطن کیا گیا تو انہوں نے یہیں پناہ لی اور اپنی جلاوطنی کے دن گزارے۔ میں کٹاس راج کے آسمان پر نگاہ ڈالتا ہوں اورسوچتا ہوں ’یہی آسمان ہو گا‘ جس کے نیچے علمی محفلیں برپا ہوتی ہوں گی۔ جہاں پہیلیاں بوجھنے کے مقابلے ہوتے ہوں گے۔ جہاں مختلف علوم کے مباحثے ہوتے ہوں گے۔ جہاں کی یونیورسٹی میں کتنے ہی طالبانِ علم کی پیاس بجھتی ہو گی۔

مجھے یوں لگا... کٹاس راج میں ہزاروں سال کی تاریخ سانس لے رہی ہے۔ شیومہاراج کی بارہ دری کے عین نیچے میں تالاب کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان سانسوں کو محسوس کر رہا ہوں۔ میں ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھتا ہوں۔ آسمان بادلوں سے بھر گیا ہے اور تیز ہوائوں کے چلنے سے یوں لگتا ہے کسی بھی وقت بارش شروع ہوجائے گی۔

نم ہوا میرے چہرے کوچھو رہی ہے۔ میں آنکھیں بند کر کے صدیوں کا سفر طے کر رہا ہوں۔ روایت ہے کہ شیو کو اپنی بیوی ستی سے بہت محبت تھی۔ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا تصور محال تھا۔ سچ ہے کہ زندگی میں محبت کی چاشنی ہی اس کو خوبصورت بنا دیتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے سفر میں مسافر ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں۔

ایک روز ستی بھی شیوکو چھوڑ کرہمیشہ کے لیے اجل کی وادی میں اترگئی۔ اس روز شیومہاراج پر انکشاف ہوا کہ زندگی ستی کے بغیر کتنی بےمعنی، کتنی بےرنگ ہے۔ اس روز وہ اپنی بےبسی پر ٹوٹ کر رویا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی قطاریں موتیوں کی لڑیوں کی صورت بہہ رہی تھیں۔ کہتے ہیں آنسوئوں کی ایک لڑی اجمیر کے قریب ایک مقام پر گری جہاں ایک چشمہ بن گیا۔ آنسوؤں کی دوسری لڑی کٹاس راج کے مقام پر گری جہاں ایک اور چشمہ بن گیا۔ یہ آنسوئوں کاچشمہ بڑھتے بڑھتے ایک تالاب بن گیا۔

اس تالاب کا رقبہ دوکنال سے زیادہ اورگہرائی 30 فٹ کے قریب ہے۔ تالاب کے اردگرد چھوٹے بڑے مندر ہیں۔ محبت جب عقیدت میں ڈھلتی ہے تو فن کے شاہکار وجود میں آتے ہیں۔ ہمیں اس دعوے پر اعتبار آجاتا ہے جب ہم ان مندروں کی طرزِ تعمیراور ان میں بنے خوبصورت نقش ونگار کودیکھتے ہیں۔

وسیع وعریض کٹاس راج کے گیٹ سے داخل ہوں تو ایک متاثرکن منظر نگاہوں کے سامنے آتا ہے۔ قدیم راستوں پر چلتے ہوئے بائیں ہاتھ بلندی کی طرف جاتا ہوا راستہ ہے جس پرست گراہ کا بورڈ لگا ہے۔ یہاں سات مندروں کاجھرمٹ ہے۔ شیو مہاراج کے مندر کی خوبصورت عمارت کی بالائی منزل پر دریچوں سے روشنی اور ہوا آتی ہے اور یہاں سے اردگرد کے منظر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ تالاب کی سڑھیوں سے اوپر بارہ دری ہے۔ بارہ دری کے دروازوں سے تالاب اورتالاب کے اس طرف شیو کا مندر صاف دکھائی دیتا ہے۔

تالاب کی سیڑھیوں پر بیٹھا میں چشمِ تصور میں اس امرت کنڈ(مقدس پانی کے تالاب) کو لبالب بھرا دیکھتا ہوں جس پر دھوپ کے آئینہ کا عکس تھرک رہا ہے۔ پجاریوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ لوگ اپنے گناہوں سے چھٹکارے کے لیے تالاب کے پانی میں اشنان کر رہے ہیں۔ اس مقدس تالاب کا پانی ان کے لیے آبِ شفا ہے جسے پی کر وہ اپنے جسم و جاں کو سیراب کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اچانک بادل کی گرج مجھے حقیقت کی دنیامیں لے آتی ہے۔ تاریخ کا ہزاروں سال کا سفر اچانک ختم ہو جاتا ہے اور میں لمحۂ موجود میں آجاتا ہوں۔ میرے سامنے شیو کے آنسوئوں کا تالاب ہے لیکن یہ وہ تالاب نہیں جو میری چشمِ تصور نے دیکھا تھا، جو کناروں سے چھلک رہا تھا، جس کے پانیوں میں پجاری پوتر ہو رہے تھے۔ یہ تو ایک اور ہی تالاب ہے جس کا پانی خشک ہوتے ہوتے پاتال سے جا لگا ہے۔ یہ منظر بہت ہی تکلیف دہ ہے۔

کٹاس راج کا تاریخی ورثہ حکومتوں کی بےحسی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کٹاس راج کے اردگرد سیمنٹ فیکٹریوں سے زیرِزمین پانی بتدریج کم ہوتاگیا۔ مقامی لوگوں کی شکایت کے باوجود فیکٹریاں اسی طرح ماحول پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔

مقامی لوگوں اور سول سوسائٹی کا احتجاج صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔ عزت مآب چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اس انتہائی سنجیدہ صورتِ حال کا نوٹس لیا۔ چیف جسٹس صاحب کی مسلسل کوششوں سے اب اس تالاب کو پانی دیا جا رہا ہے لیکن یہ ان شفاف چشموں کاپانی نہیں جن میں شیو کے آنسوؤں کی مہک تھی۔ وہ چشمے، جنہیں سیمنٹ فیکٹریوں نے بانجھ کر دیا ہے، تالاب باہر سے لائے ہوئے پانی سے بھر تو جائے گا لیکن اس میں وہ تاثیر کہاں سے آئے گی جوآنسوؤں کے آبِ شفا میں تھی۔

میں اپنے اردگرد گھومتے پھرتے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو مختلف عمارتوں کی، تالاب کی، گردوپیش کی تصویریں لے کر وقت کوگرفتار کرنے کی معصوم خواہش کرتے ہیں، لیکن وقت تو کبھی رکتا نہیں۔ انسان فانی ہیں آتے اورچلے جاتے ہیں۔ وقت کا ہاتھ انسانوں کے علاوہ عمارات پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ کٹاس راج کی عمارتوں میں خستگی کے آثار ہیں۔

اب بارش کی بوندیں آسمان سے اترنا شروع ہوگئی ہیں۔ میں تالاب کی سڑھیوں سے اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اورایک بار پھر شیو کی بارہ دری چلا جاتا ہوں جہاں میں بارش سے محفوظ ہوں، جہاں بارش کے نم جھونکے مجھے چھورہے ہیں، جہاں میں تالاب کے اُس طرف ان خوبصورت محرابوں، کھڑکیوں اوردریچوں کو دیکھ رہا ہوں، بارش کی بوندوں میں سارا منظر اور حسین ہوگیا ہے۔ میں بارہ دری سے نیچے اترتا ہوں اور آبِ شفا والے راستے کے کنارے کنارے واپسی کے رستے پر چلنا شروع کر دیتا ہوں۔

گیٹ پر پہنچ کر میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں! کٹاس راج بارش میں چھپ گیا ہے۔ تیز بارش میں چلتے ہوئے دور پارکنگ میں کھڑی گاڑی تک پہنچتے پہنچتے میں ہانپنے لگتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں تاریخ کے آڑے ترچھے راستوں کا سفر بھی کتنا تھکا دینے والا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ