عوام کب تک چندے دیتے رہیں گے؟

ستم ظریفی دیکھیے کہ یہاں دریا کنارے بیٹھے لوگ ان محروموں سے چندے مانگتے ہیں جنہیں ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے ہاتھوں سے کنواں کھودنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد کلب  1952 کنال رقبے کے  سالانہ 26 سو روپے سالانہ ادا کرتا ہے، یعنی ایک روپیہ 37 پیسے فی کنال (اسلام آباد کلب)

کیا ہماری معاشی معاملہ فہمی کی کہانی بس اتنی ہی ہے کہ بحران سر پر آئے تو اینکروں کو جمع کرکے ایک میراتھون ٹرانسمیشن کر لی جائے؟

مشکل وقت میں اہلِ خیر سے رجوع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ہر معاملے میں دست سوال کو شمشیر کی صورت لہراتے رہنا بھی کوئی قابل تحسین رویہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ غریب قوم کب تک چندے دیتی رہے گی؟ کیا ہمارے حکمرانوں کی قوت خیال چندے کے اس کوہ قاف سے آگے نہیں جا سکتی؟ اہل اقتدار کو کچھ خبر ہے کہ طرز حکومت میں کئی ایسے مقامات آہ و فغاں موجود ہیں جہاں تھوڑی سی توجہ فرما لی جائے تو اربوں روپے نہ صرف بچائے جا سکتے ہیں بلکہ کمائے بھی جا سکتے ہیں؟

وزیر اعظم ہاؤس سے چند قدم کے فاصلے پر اسلام آباد کلب ہے جہاں شہر کے مبینہ شرفا تشریف لاتے ہیں۔ اس کلب کے پاس 244 ایکڑ سرکاری زمین ہے۔ یہ زمین اس کلب کو مبلغ ایک روپیہ فی ایکڑ سالانہ پر عطا کی گئی تھی، 2018 میں یہ رقم بڑھا کر مبلغ 11 روپے کر دی گئی۔ آپ پاکستان کی ناکارہ، بنجر اور ویران زمین بھی اس ریٹ پر نہیں لے سکتے، جبکہ یہ زمین جو اسلام آباد کلب کو دی گئی ہے یہ اسلام آباد کا دل ہے۔ کسی سے پوچھ کر دیکھیے اس زمین کی قیمت کیا ہے اور پھر ایکڑوں کے کنال اور مرلے نکال کر حساب لگا لیجیے، ان 244 ایکڑوں کو بیچ کر یا کسی کو لیز پر دے کر ریاست پاکستان کتنی رقم حاصل کر سکتی ہے۔

خلق خدا نے ہر بار چندے کی کال پر لبیک کہا، اس مرتبہ بھی وہ اپنے وزیر اعظم کو مایوس نہیں کرے گی لیکن کیا یہ مخلوق پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ اسلام آباد کلب کو 11 روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے 244 ایکڑ زمین کیوں اور کس اصول کے تحت عطا فرمائی گئی؟ کیا اس ملک کے وسائل اشرافیہ اور بیوروکریسی کے لیے ہیں اور کیا اس ملک میں عوام صرف اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ ان ڈائرکٹ ٹیکس کے عذاب سے کچھ بچا پائیں تو چندے میں دے کر اچھا شہری ہونے کا ثبوت دیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شکر پڑیاں کے ساتھ اسلام آباد گنز کلب ہے۔ سپریم کورٹ نے چند سال پہلے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا تو معلوم ہوا کہ 72 ایکڑ زمین اس گنز کلب کو لیز پر دی گئی ہے اور بالکل مفت دے دی گئی ہے۔ ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔ اس نوٹس پر جب سی ڈی اے نے رپورٹ جمع کرائی تو نئے حیرت کدے آباد ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ حکومت نے پاکستان سپورٹس بورڈ کو جو زمین دی تھی اس میں سے اس نے 44 ایکڑ ایک پرائیویٹ کلب کو دے دیے ہیں۔ سی ڈی اے نے یہ بھی بتایا کہ اسے حکم دیا گیا کہ گنز کلب کو مزید 28 ایکڑ زمین دی جائے اور اس کا کوئی کرایہ نہ لیا جائے۔ اسلام آباد کلب کے ساتھ پاکستان گالف فیڈریشن کو زمین عطا فرمائی گئی ہے۔ یہ 150 ایکڑ ہیں اور یہ صرف دو روپے 41 پیسے فی مربع فٹ سالانہ پر لیز کی گئی ہے۔

اسلام آباد کلب پہلے ایک لمیٹڈ کمپنی تھی۔ 1978 میں صدارتی حکم کے ذریعے اسے حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔ اب کہنے کو وزارت کیڈ اسے دیکھ رہی ہے لیکن عملاً یہ ریاست کے اندر ریاست ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ پڑھیں تو ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ حکومت پاکستان کی منظوری کے بغیر یہ ملازمین بھرتی کرتا ہے۔ عشرے گزر گئے اس نے ایک بائی لا بھی حکومت سے منظور نہیں کروایا۔ پیپرا رولز کے تحت 20 لاکھ سے زائد کی خریداری کا ایک طریقۂ کار ہے اور باقاعدہ ویب سائٹ اور اخبار میں اشتہار دینا لازم ہوتا ہے لیکن یہاں ایک ارب کی خریداری بغیر کسی اشتہار کے ہوئی۔

 کلب صرف سرکاری ملازمین اور غیر ملکی سفارت کاروں کے لیے بنایا گیا تھا، اسے اب کمرشل کر دیا گیا ہے۔ اب دولت مند طبقے کا یہ سٹیٹس سمبل ہے اور ایک ملین سے زیادہ تک اس کی ممبر شپ فیس ہو چکی ہے۔ یہ پیسے کہاں جاتے ہیں؟ یہ حکومتی ادارہ ہے تو اس پر حکومتی ضابطہ کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ یہ کمپنی ہے تو پھر ایس ای سی پی کے دائرہ کار میں کیوں نہیں آتی؟ غریب عوام کے وسائل پر بیوروکریسی اور اشرافیہ نے وزیر اعظم ہاؤس سے چند قدم کے فاصلے پر کیا ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے؟

اسلام آباد کی اربوں روپے کی قیمتی زمین کیسے بانٹی گئی، اس کا ایک خوفناک پہلو اس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے چند سال پہلے معاملے کا نوٹس لیا۔ معلوم ہوا سی ڈی اے نے راول جھیل کے پہلو میں اربوں روپے مالیت کی زمین کسی کو لیز پر دے رکھی ہے لیکن اب اسے خود معلوم نہیں کہ کسے دے رکھی ہے۔

ضلعی سطح پر بھی یہی حال ہے۔ وائٹ ہاؤس کا رقبہ 19 ایکڑ یعنی 152 کنال ہے لیکن ہمارے کمشنر سرگودھا کی رہائش گاہ 104 کنال پر مشتمل ہے۔ ایس پی ساہیوال کا سرکاری محل 98 کنال کا ہے۔ ڈی سی میانوالی کا محل 95 کنال اور ڈی سی فیصل آباد کا محل 92 کنال پر محیط ہے۔ پنجاب پولیس کے ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کی رہائش گاہیں 860 کنال پر محیط ہیں۔ آئی جی اور چیف سیکرٹری کو ریٹائرمنٹ پر ہائی کورٹ کے ججز کو ملنے والی مراعات دی جاتی ہے۔ تاحیات ڈرائیور، اردلی دیا جاتا ہے، ہر ماہ 800 یونٹ بجلی اور 200 لیٹر پٹرول مفت ہوتا ہے۔ بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ اراکین پارلیمان اور ان کی فیملی کو تاحیات ملنے والی مراعات کا بھی ایک دریا بہہ رہا ہے۔

ان فضول خرچیوں اور وسائل کی اس بربادی کو روک دیا جائے تو پاکستان اربوں روپے بچا سکتا ہے۔ لیکن یہ بھاری پتھر کوئی اٹھانے کو تیار نہیں۔ سب کو بس عوام ملے ہوئے ہیں۔ جی چاہا تو ان ڈائرکٹ ٹیکسز اور مہنگائی سے انہیں ادھیڑ لیا اور جی چاہا تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے پیسے کاٹ کر باقیوں کے آگے”چندہ باکس“ رکھ دیا۔

ستم ظریفی دیکھیے یہاں دریا کنارے بیٹھے لوگ ان محروموں سے چندے مانگتے ہیں جنہیں ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے ہاتھوں سے کنواں کھودنا پڑتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ