کشمیر ارطغرل کی تلاش میں

ترکی کے اس ڈرامے نے کشمیریوں میں ناصرف ان کے اپنے عقیدے کو مزید مضبوط کر دیا ہے بلکہ انہیں اپنے جائز حقوق کے حصول میں صبروتحمل برتنے کا نیا سبق بھی دیا ہے۔

کشمیر میں آج کل بیشتر لوگوں کی دو اہم مصروفیات ہیں۔ ایک روزہ داری اور دوسرا ترکی زبان کا ’ڈیلیریس ارطغرل‘ ڈراما باقاعدگی سے دیکھنا۔۔۔۔۔

گذشتہ برس پانچ اگست کے فیصلے کے بعد جب بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز میں تبدیل کر دیا تو کشمیری عوام میں انتہائی افسردگی، پست ہمتی اور شدید منفی اثرات کا رحجان دیکھا گیا۔

ریاست کو پہلے ہی فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر کے عوام کو اس فیصلے کے خلاف اُف تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ شدید لاک ڈاؤن کے باوجود بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے جس کو میڈیا میں آنے سے روکنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ اس پر کشیدہ ماحول کے سبب ہر شخص اندرونی گھٹن محسوس کرنے لگا۔

کشمیر میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہی ڈرامے، خبریں اور تفریح کے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جو بھارتی موقف کے طرف دار ہیں۔ بعض چینلوں سے نشر ہونے والے پاکستانی اور ترکی ڈراموں پر حکومت نے پابندی عائد کی ہے۔ ایسے میں جب لوگوں کو ترکی ڈرامے ارطغرل کے بارے میں پتہ چلا تو فورا اس کی ڈاؤن لوڈنگ شروع ہو گئی۔ اس کو دیکھنے سے انہیں ذرا سی راحت محسوس ہونے لگی اور ڈرامے میں اوگوز کائی قبیلے کی لمبی جدوجہد کو اپنی تحریک سے تشبیہ دینے لگے۔

سن اسی کے اوائل میں جب ہالی وڈ فلم عمر مختار کو کشمریوں نے سکرین پر دیکھا تو انہوں نے فورا عمر کا مسولینی فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہنے کو 1931 کی تحریک کے ان شہیدوں سے موازنہ کر دیا جس کی بنیاد پر بعد میں شیخ محمد عبداللہ نے ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف اپنی مہم شروع کی تھی۔ بعض شاہدین کے مطابق ڈوگرہ فوج کی گولی سے ہلاک ہونے والے پہلے شہید عبدالقدیر نے مرتے وقت شیخ عبداللہ کے کان میں کہا تھا کہ ’تحریک کو آگے لے جانا اب آپ کی ذمہ داری ہے۔‘ لیکن 1947 میں برصغیر کے بٹوارے کے بعد عوام کی خواہشات کے برعکس شیخ کے ہندوستان سے ناطہ جوڑنے کے فیصلے کے خلاف بیشتر کشمیری اپنے ہاتھ ملتے رہ گئے۔

عمر مختار فلم دیکھ کر کشمیر میں یہ بحث ہر گھر میں چھڑ گئی کہ شیخ عبداللہ نے عمر مختار کی طرح موت کو ترجیح کیوں نہیں دی تاکہ کشمیری ان کے فیصلے کا عذاب صدیوں تک نہیں سہتے رہتے۔ اس فلم کے چند برس بعد ہی ریاست میں مسلح تحریک شروع ہوگئی تھی۔

ارطغرل ڈراما بیشتر کشمیری حلقوں میں آج کل موضوع بحث بنا ہوا ہے، خاص طور سے نوجوانوں میں۔ اس سیریز کی بدولت بیشتر لوگ اسلام کی تاریخ، ناکامیوں، کامابیوں اور فتوحات میں کافی دلچسپی لینے لگے ہیں۔

ایک سینیئر صحافی کے مطابق ’بھارتی حکومت نے ریاست میں مسلم کردار کو ختم کرنے کا ایک منظم منصوبہ شروع کیا ہے۔ ایسے دوسرے سخت اقدامات شروع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ کشمیر میں ریڈکلزم کی سوچ انتہائی گہری ہوچکی ہے مگر میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ ان اقدامات کے ردعمل میں ہی عوام میں نہ صرف اسلامی تعلیمات کی جانب رحجان بڑھ گیا ہے بلکہ تحریک آزادی کو ترکی قبیلے کی لمبی جدوجہد سے جوڑ کر یہ عزم پختہ ہو گیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کی خاطر باطل کے سامنے صدیوں تک خاموش لڑائی لڑتے رہیں گے۔ کئی اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں میں یہ سوچ بہت مضبوط ہے۔ حکومت نے ان ہی خدشات کے پیش نظر انٹرنیٹ کی سہولت کو جان بوجھ کر محدود کر رکھا ہے تاکہ وہ اس طرح کے پروگراموں سے متحرک نہ ہو سکیں۔‘

ترکی کا یہ ڈراما دراصل اس دور کی عکاسی کرتا ہے جو صلیبی جنگ  کے خاتمے اور قیام سلطنت عثمانیہ کے بیچ کا وقت ہے۔ جب بارویں صدی میں صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو حاصل کرنے کا سوچا اور فورا ان کے انتقال کے بعد مسلمان سیاسی انتشار کا شکار ہوگئے تھے۔ یہ صورت حال تقریباً پندرہویں صدی تک قائم رہی۔ اس دوران ترکی کے اوگوز قبائلی رہنماؤں نے مسلمانوں کو متحد کرنے اور دشمنوں کے خلاف صف آرا ہونے کی لمبی جدوجہد چلائی جن میں بقول ترکی مورخین ارطغرل اور بعد میں ان کے بیٹے عثمان پیش پیش رہے ہیں۔ بعض مورخین کے حوالے سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ عثمان کی فتوحات ہی عثمانیہ سلطنت کے قیام  کی بنیاد بنی جو پھر 600 سال تک مسلمانوں کی متحد مرکزی قیادت رہی۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد 1922 میں عثمانیوں کی مملکتیں جو ایک بار پھر بیرونی، اندرونی اختلافات اور انتشار کی وجہ سے کمزور ہوچکی تھیں برطانیہ، روس، فرانس اور یونان نے آپس میں بانٹ کر سلطنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی کمال اتاترک کے موجودہ ترکی کی بنیاد پڑی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ارطغرل سیریز پر یورپ اور امریکی میڈیا میں بھی کافی تبصرے کئے جا رہے ہیں بلکہ ایک جریدے نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’یہ ڈراما ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔‘ جرمنی کی کیرن جودہ فشر جو امریکہ میں رہتی ہیں اور کئی برس تک کشمیر میں سماجی سدھار میں شامل رہیں کہتی ہیں کہ ’کشمیری عسکری پسند ڈاکٹر منان وانی میں نہ صرف ارطغرل جیسا جوش اور جذبہ موجود تھا بلکہ مختلف نظریات رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی سوچ بھی تھی لیکن بھارتی فوج نے اس کی ہلاکت سے کشمیری تحریک کو بڑی ضرب لگائی۔‘

انسانی حقوق کے ایک سرکردہ کارکن منظور قادر کا خیال ہے کہ عمران خان، رجب طیب اردوان اور مہاتیر محمد کی اسلامی چینل قائم کرنے کے برعکس اگر اسلامی دور سے متعلق ارطغرل جیسے سیریل بنائے جاتے تو ان کے اسلامی معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے اور ہماری نسلیں اپنے مذہب کی شان رفتہ سے متعارف ہو جاتے۔

کشمیر میں محدود انٹرنیٹ کے باوجود سوشل میڈیا پر ترکی کا ڈرامہ بحث مباحثے کا بڑا موضوع بنا ہوا ہے۔ بعض بندوق برداروں کو ارطغرل کی بہادری کے برابر ٹھہرایا جا رہا ہے یا ان کی جیسی سوچ پیدا کرنے کے لیے بعض لیڈروں کا نام لیا جا رہا ہے حتیٰ کہ بعض محفلوں میں ایک نئے ارطغرل کے وجود میں آنے کی دعا بھی کی جا رہی ہے جو کشمیر کی آزادی کا علم بردار بن جائے۔

کسے معلوم کہ کوئی نیا ارطغرل پیدا ہو یا نہیں مگر اس بات پر لوگوں کو یہ اطمینان ضرور حاصل ہوا ہے کہ کشمیری عوام کو انتہائی گھٹن کے اس ماحول میں تفریح کا ایک بہترین ذریعہ فراہم ہوا ہے کہ جس نے نہ صرف ان میں اپنے عقیدے کو مزید مضبوط کر دیا ہے بلکہ انہیں اپنے جائز حقوق کے حصول میں صبروتحمل برتنے کا نیا سبق بھی ملا ہے جیسا کہ یونیورسٹی کی پروفیسر محمودہ رحمان نے حال ہی میں انسانی حقوق کی ایک میڈیا کانفرنس میں اظہار خیال کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ