لاک ڈاؤن میں نرمی: کیا واقعی پاکستان میں کرونا کم پھیل رہا ہے؟

اوسطاً پاکستان میں کرونا کیسز کی شرح ان ممالک جیسی ہے جو پاکستان کے برابر کرونا ٹیسٹ کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے کرونا ڈاکٹر فیصل سلطان نے یہ دعوی کیوں کیا کہ پاکستان میں کرونا کی ٹرائجیکٹری دیگر ممالک کی نسبت کم ہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کے حوالے سے بنائے گئے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر(این سی سی سی) نے ملک بھر میں جزوی لاک ڈاون میں مزید نرمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس بات کا اعلان جمعرات کو وزیر اعظم عمران خان اور  این سی سی سی کے دیگر ارکان نے میڈیا بریفنگ کے دوران کیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے بتایا کہ پہلے بھی ہم نے عوام کو ریلیف دینے کی وجہ سے لاک ڈاون میں نرمی کا اعلان کیا تھا اور اب دوسرے مرحلے میں مزید کچھ صنعتیں کھولنے جا رہے ہیں اورمزید  نرمی کا اطلاق سات مئی سے ہو گا۔

بریفنگ میں موجود  وزیراعظم عمران کے مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان نے لاک ڈاون میں نرمی کی وجہ یہ بتائی کہ پاکستان میں کرونا  کا پھیلاو دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے اور اسی وجہ سے ابھی تک ہمارے صحت کے مراکز پر وہ بوجھ نہیں پڑا ہے جس کا سامنا دیگر ممالک کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر فیصل  نے بتایا: 'پاکستان میں ٹیسٹ کی تعداد بڑھنے سے کیسز بھی بڑھ گئے ہیں تاہم کیسز بڑھنے کی رفتار دیگر ممالک سے اب بھی کم ہے۔ ہمارے پاس اب اتنا ڈیٹا موجود ہے کہ ہم اپنا ماڈل بنا سکتے ہیں جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیسز کس رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔'

تاہم ڈاکٹر فیصل کا یہ دعوی کہ پاکستان میں کیسز دیگر ممالک سے کم رفتار پر بڑھ رہے ہیں، انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان میں کرونا کیسز کا دیگر ممالک کے کیسز کے ساتھ موازنہ کیا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں اوسط کیسز کی رفتار دیگر ممالک جتنی ہی ہے۔

امریکہ کی مثال اگر ہم سامنے رکھیں تواعدادوشمار کے مطابق وہاں ٹیسٹ کے بعد ہر100  میں 16  افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ وہاں پر اموات کی شرح تقریبا چھ فیصد ہے۔اسی طرح بھارت میں ہر 100   میں سے تین افراد میں کرونا کی  تصدیق ہوئی ہے اور اموات کی شرح بھی تقریبا تین فیصد ہے۔

اگر بنگلا دیش کے اعداو شمار کو دیکھا جائے تو وہاں ہر 100  میں تقریبا 12  افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہے۔ اب پاکستان کے اعداوشمار پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں ہر 100 میں تقریبا 10  افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہے۔

سعودی عرب کی مثال اگر ہم لیں تو وہاں پر ہر 100  میں تقریبا نو افراد  میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہے اور اموات کی شرح 0.6  فیصد ہے۔

یورپ میں دیکھا جائے تو سپین کے ہر 100  میں 10  افراد میں کرونا کی تصدیق  جب کہ اموات کی شرح 10  فیصد  ہے، جرمنی کے ہر100  ٹیسٹ میں تقریبا پانچ افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ اموات کی شرح  3.4  فیصد ہے۔

ان اعدادوشمار سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں کرونا کے کیسز اسی رفتار سے آگے جا رہے ہیں جس رفتار سےدنیا  کے دیگر ممالک میں جا رہے ہیں تاہم کچھ ممالک میں کم اور کچھ میں زیادہ کیسز ہیں۔ اوسط نکالی جائے تو پاکستان میں کیسز کی شرح ان ممالک جو پاکستان جتنے ٹیسٹ کر رہے ہیں کے تقریبا برابر ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر فیصل نے یہ دعوی کیوں کیا ہے کہ ملک میں کرونا کی رفتار دیگر ممالک سے کم ہے؟ اس سوال کے جواب میں خیبر پختونخوا کے وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا  جو وفاقی حکومت کے ساتھ مشاورت میں موجود ہوتے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو  بتایا کہ واضح طور پر کوئی بھی ملک یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہاں پر کیسز بڑھنے کی رفتار کم ہے یا زیادہ ۔

تاہم  جھگڑا  نے بتایا کہ کہ ڈاکٹر فیصل اور دیگر صوبوں کے نمائندوں نے مشاورت میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ملک میں اموات کی شرح جو تقریبا دو فیصد ہے بہت سے ممالک کی اموات کی شرح سے کم ہے۔

جھگڑا نے بتایا: 'پہلی بات یہ کہ اموات کی شرح پاکستان میں کم ہے اور دوسری جانب پاکستان کے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر پر موجود مریضوں کی شرح بھی دیگر بہت سے ممالک سے کم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہاں پر کرونا دیگر ممالک کی طرح نہیں پھیلا۔'

انہوں نے بتایا کہ 'مارچ میں ہم نے جو اندازہ لگایا تھا تو ہمارا خیال تھا کہ ملک میں اموات  مئی تک ہزاروں تک پہنچ جائیں گئی تاہم اموات کی شرح اتنی نہیں بڑھی اور اموات دوگنا ہونے کا شرح بھی دیگر ممالک سے کم ہے  اور تب ہی ہم نے کیلکولیٹڈ رسک لے کر  لاک ڈاون میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے۔'

اموات کی شرح تو کم ہے لیکن کیا لاک ڈاون میں نرمی سے کیسز بڑھنے کا خدشہ نہیں ہوگا، اس سوال کے جواب میں تیمور جھگڑا نے بتایا کہ 'ہم نے اہم جگہوں جیسے مسسجدیں، کارخانے، ریٹیل آوٹ لیٹس کے لیے بنائی گئیں احتیاطی تدابیر  پر سختی سے عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی عوام پر ماسک پہننے پر بھی زور دیں گے۔'

انہوں نے دیگر بیماریوں کے بارے میں بتایا کہ 'ہمارے صوبے نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم دیگر بیماریوں جیسا کہ پولیو، ڈینگی وغیر پر بھی توجہ دینا شروع کر دیں تا کہ  ایسا نہ ہو کہ کرونا کے باعث دیگر بیماریاں نظر انداز ہو جائیں۔'

اموات کی شرح اور ڈبل نمبر گیم 

اموات کے دگنا  ہونے کی شرح کے حوالے سے حکومتی دعوے کو مزید جانچنے کے لیے ہم نے یورپین سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اموات کی شرح میں پاکستان 140 ممالک میں پہلے 20 جب کہ کیسز کی شرح میں پہلے 35 ممالک میں شامل ہے۔

ان اعدادوشمار  کے مطابق پاکستان 140 ممالک کی فہرست کے پہلے 20 ممالک میں 16 ویں نمبر پر ہے جہاں ہر  10 دن بعد اموات دگنی ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 27 اپریل کو پاکستان میں اموات کی تعداد 281 تھیں جو دس دنوں یعنی سات مئی کو 564 تک پہنچ گئی ہیں۔

اسی طرح اعدادوشمار کے مطابق پاکستان پہلے 40 ممالک میں 32ویں نمبر پر ہے جہاں کرونا کیسز کی تعداد 12 دنوں میں دگنی ہو جاتی ہے یعنی 25 اپریل کو ملک میں کیسز کی تعداد 11940 تھے جو اب 12 دنوں میں تقریبا دگنی ہوکر 24073 تک پہنچ گئی ہیں۔

ماہرین کیا رائے رکھتے ہیں؟

اس ساری صورت حال پر خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ پبلک ہیلتھ کے ڈین پروفیسر ضیا الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاحال پاکستان میں ہسپتالوں پر دیگر ممالک کی طرح کرونا کے مریضوں کا بوجھ نہیں پڑا ہے تاہم پاکستان ابھی تک کرونا(کورونا) صورتحال کے بلند سطح پر نہیں پہنچا ہے اور موجودہ اعدادوشمار اور کیسز بڑھنے کے رفتار کو دیکھا جائے تو کیسز اور اموات میں مزید اضافے کی توقع ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: 'ہمارے ملک میں کرونا کے خلاف ابتدائی ریسپانس بہتر تھا جب کم کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی اگر لاک ڈاون میں نرمی کی گئی ہے تو اس سے مقامی سطح پر کرونا پھیلنے کا خدشہ ضرور موجود ہے۔'

ڈاکٹر ضیا نے بتایا کہ لاک ڈاون میں اگر نرمی کا اعلان کیا گیا ہے تو ابھی حکومت کو چاہیے کہ عوام میں آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ مختلف سیکٹرز کے لیے بنائے گئے کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرایا جائے۔

انہوں نے بتایا: 'ملک میں موجودہ شرح اموات اور کیسز کی شرح بالکل بھی کم نہیں ہے اور ہمیں سنجیدگی سے اس مسئلے کو لینا چاہیے۔اگر احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا گیا تو مئی کے آخر تک اموات اور کیسز میں اتنا اضافہ ہو سکتا کہ حالات حکومت کے قابو سے باہر ہو جائیں گے۔'

وینٹی لیٹرز پر موجود مریضوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وینٹی لیٹر پر پاکستان میں ابھی تک اتنے مریض نہیں ہیں تاہم مئی کے آخر تک جب ہم بلند ترین سطح پر پہنچ جائیں گے تو ہو سکتا ہے زیادہ مریضوں کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑے۔

اپنی رائے دیجیے

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے ٹوئٹر پر پوچھے گئے سوال کے لیے آپ کی رائے اہم ہے۔ رائے دیجیے اور نتیجہ جانیے:

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان