صدر ٹرمپ کے ٹیکس ریٹرنز کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

امریکی سپریم کورٹ منگل سے صدر ٹرمپ کے ٹیکس ریٹرنز اور صدارتی استثنی کی حدود جیسے اہم معاملات کی سماعت کرنے جا رہی ہے۔

ٹرمپ سابق صدر رچرڈ نکسن کے بعد دوسرے امریکی صدر ہیں جنہوں نے اپنے ٹیکس گوشوارے ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے (اے ایف پی)

امریکی سپریم کورٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکس ریٹرنز اور صدارتی استثنی کی حدود جیسے اہم معاملات کی سماعت کرنے جا رہی ہے۔

سپریم کورٹ منگل کو اس سیاسی سوال کا جائزہ لے گی کی کیا صدر ٹرمپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امریکی کانگریس اور نیویارک کی عدالت میں اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے سے مستثنی ہیں؟

عدالت کے نو جج، جو کرونا وبا کی وجہ سے اپنے گھروں تک محدود ہو چکے ہیں، ٹیلی فون پر سماعت کریں گے اور یہ تمام کارروائی لائیو دکھائی جائے گی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ کارروائی مارچ کے آخر میں طے تھی تاکہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے پہلے اس کا فیصلہ سامنے آ سکے، جن میں صدر ٹرمپ دوسری بارعہدہ صدارت کے امیدوار ہوں گے۔

ٹرمپ سابق صدر رچرڈ نکسن کے بعد دوسرے امریکی صدر ہیں جنہوں نے اپنے ٹیکس گوشوارے ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان سے قبل 1970 میں نکسن بھی ایسا کر چکے ہیں۔

سال 2018 میں امریکی ایوان نمائندگان میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد سے حزب اختلاف ڈیموکریٹک پارٹی اس معاملے کی جانچ کی کوشش کر رہی ہے۔

امریکی مصنف سٹیون میزی کا کہنا ہے کہ 'یہ بات صاف ہے کہ ان کاغذات میں ایسا کچھ ہے جو صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ہم نہ دیکھیں۔'

ڈیموکریٹ سائرس وانس صدر ٹرمپ کی جانب سے پورن ایکٹریس سٹارمی ڈینئیلز کو خاموشی کے بدلے ادا کی جانے والی رقم کی تفتیش کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر ٹرمپ نے فوری طور پر ان تمام دستاویزات کو منظر عام پر نہ لانے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ 'وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ قانونی نہیں۔ یہ ایک وچ ہنٹ (سیاسی انتقام) ہے۔'

نچلی عدالتوں میں اپنے موقف کی ناکامی کے بعد صدر ٹرمپ اب امریکہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپنا موقف پیش کریں گے۔ عدالت کے نو ججوں میں صدر ٹرمپ کے مقرر کردہ دو جج بھی شامل ہیں، جس کے باعث عدالت کا دائیں بازو کی جانب جھکاؤ واضح محسوس ہوتا ہے۔

امریکی صدر کے وکیل نے عدالت کو لکھے جانے والے بریف میں کہا کہ 'صدر کے خلاف ہر ہاؤس کمیٹی اور قانونی فورم کو استعمال کرنا ایک آئینی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔'

جبکہ ایوان نمائندگان کے وکیل نے اپنے بریف میں ری پبلکن صدر رچرڈ نکسن سمیت ڈیموکریٹ صدر جمی کارٹر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 'اس کی کوئی مثال نہیں۔ صدر ٹرمپ کے وکلا صدراتی اختیارات کو ایک تفتیش روکنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔'

اپریل میں عدالت نے فریقین کو اس سوال کا جواب لکھ کر دینے کو کہا تھا جس میں یہ طے کرنا تھا کہ یہ معاملہ سیاسی ہے نہ کہ قانونی۔ اور اگر اسے سیاسی قرار دیا جائے تو جج اس معاملے پر کوئی رائے قائم کیے بغیر اس کو ختم کر سکتے ہیں۔

دونوں طرف کے وکلا نے اس سوال کا جواب 'نہیں' میں دیا، جس کے بعد اب عدالت اس معاملے کا جائزہ لے کر اس کو حل کرے گی۔

ٹرمپ کے وکلا کا کہنا ہے کہ صدر کو مکمل استثنی حاصل ہے۔ صدر کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نیویارک کے ففتھ ایونیو پر کسی کو گولی بھی مار دیں تو انہیں سزا نہیں دی جا سکتی جب تک وہ صدر ہیں۔

ایک جج نے جب پوچھا کہ 'کیا کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا؟ تو صدر ٹرمپ کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے۔

صدر ٹرمپ کے وکلا نے موقف اپنایا کہ 'صدر کو بغیر کسی خوف کے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ دوسری صورت میں کوئی ریاست یا علاقہ صدر کی کارکردگی کے خلاف بھی قانونی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔'

تاہم قانونی ماہرین کلیئر فنکلسٹین اور رچرڈ پینٹر کا کہنا ہے کہ صدارتی وکلا کا یہ موقف سپرم کورٹ کے اپنے ریکارڈ کے خلاف جاتا ہے۔

دونوں ماہرین کے مطابق 'صدر کے استشنیٰ میں توسیع قانون کی حکمرانی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ اگر سپریم کورٹ صدر کا موقف تسلیم کر لیتی ہے تو یہ ملک میں احتساب کے اصولوں کو بدلنے جیسا ہو گا جس پر ہماری جمہورت کا انحصار ہے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ