سوات کی نوجوان شاعرہ نورا کو ایف آئی اے نے کیوں طلب کیا؟

17 سالہ شاعرہ کا کہنا ہے کہ ان کے تمام قریبی رشتہ داروں نے ان سے اس کے بعد سے قطع تعلق کرلیا کہ وہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور شاعری کرتی ہیں۔

نورا احساس کا کہنا ہے کہ درخواست گزارکے خاندانی اثر و رسوخ کی وجہ سے ان کے خلاف یکطرفہ کاروائی کی گئی ہے(تصویر: نورا احساس فیس بک پیج)

سوشل میڈیا پر اپنی رومانوی شاعری کے حوالے سے مشہور سوات کی نورا احساس کو دو روز قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے طلب کیا تو کئی صارفین نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔

17 سالہ نورا احساس نے ایف آئی اے میں طلبی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کےگاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے یہ کہہ کر ان کے خلاف شکایت درج کروائی تھی کہ ان کی ذاتی معلومات شاعرہ کے اکاؤنٹ سے شئیر ہوئی ہیں، تاہم نورا نے اس کی تردید کردی ہے۔

دوسری جانب شکایت کنندہ سیف الدین حیدر نامی نوجوان کا موقف ہے کہ نورا احساس کی شاعری پر تنقید کے بعد انتقام کے طور پر انہوں نے نہ صرف ان کےخلاف ایف آئی اے میں جھوٹا مقدمہ درج کروایا بلکہ ان کی والدہ کی تصویر اور دیگر معلومات نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے نکلوا کر سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر کی۔

درخواست گزار کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'سرینڈر نہ کرنے کی صورت میں نورا نے ان کی باقی فیملی کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی دھمکی دی تھی، جس کے بعد انہوں نے ثبوتوں کے ساتھ سائبر کرائم ونگ میں درخواست دے کر ان کی گرفتاری ممکن بنائی۔'

درخواست گزار سیف الدین نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس تمام معاملے کے حوالے سے دیگر تفصیلات میں لکھا ہے کہ انہوں نے شاعرہ کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ بھی درج کروایا ہے۔

دوسری جانب نورا احساس کا کہنا ہے کہ درخواست گزارکے خاندانی اثر و رسوخ کی وجہ سے ان کے خلاف یکطرفہ کاروائی کی گئی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سائبر کرائم ونگ کے دفتر میں تفتیشی افسران انہیں درخواست گزار کے والد کے وکالت کے شعبے سے تعلق کی بنا پر بار بار ڈراتے اور دھمکاتے رہے۔

(تصویر: نورا احساس فیس بک پیج)


نورا کے مطابق دوران تفتیش ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے سیف الدین نامی نوجوان کی ذاتی معلومات کی بغیر اجازت تشہیر کیوں کی؟ جس پر انہوں نے ایف آئی اے افسران کو بتایا کہ وہ ایک باپردہ خاتون رہی ہیں اور اس کے باوجود شکایت کنندہ نے ان کی بغیر نقاب والی تصویر دیگر ذاتی معلومات کے ساتھ سوشل میڈیا پر عام کیں۔

نورا کے مطابق جب انہوں نے اسی دفتر میں شکایت درج کی تو تب اس کی کوئی شنوائی نہ ہو سکی تھی اور اب انہیں تفتیش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے نورا نے کہا کہ جب ان کی پہلی غزل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو بہت سارے پختون نوجوانوں نے ان کی نقل اتار کر ان کا مذاق اڑایا۔

'تاہم یہ نوجوان جس کا بعد میں مجھے علم ہوا کہ ان کا تعلق بھی دراصل سوات ہی سے ہے، ذاتیات پر اتر آیا۔ میں نے مارے پریشانی کے اپنی ٹیچر سے بات کی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ میں خود اس لڑکے سے معافی مانگ لوں۔ '

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نورا کہتی ہیں کہ انہوں نے استانی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے انسٹاگرام پر  اس نوجوان کو پیغام بھیجا اور ان سے اپنی ناکردہ غلطی کی معافی مانگ لی تاکہ وہ ان کو تنگ کرنا بند کر دے۔

'اگلے ہی دن انہوں نے ایک نئی ویڈیو بنائی اور اس میں میری معافی والا میسج لگا کر لوگوں کو بتایا کہ یہ دیکھو نورا احساس نے مجھ سے معافی مانگی ہے۔ پھر اس کے بعد میں تو خاموش ہوگئی اور وہ تقریباً تین مہینے تک میرے حوالے سے پوسٹس کرتا رہا۔'

نوجوان شاعرہ کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والا شخص دراصل شہرت کاخواہش مند ہے کیونکہ انہوں نے گاؤں میں بعض لوگوں کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ تو کئی سالوں سے محنت کر رہے ہیں پھر بھی مشہور نہیں ہوئے جب کہ ایک لڑکی صرف چند مہینوں میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی ہے۔

دوسری جانب نورا نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تھا بلکہ محض پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔

نورا احساس نے  بتایا کہ ان کے تمام قریبی رشتہ داروں نے ان سے اس کے بعد سے قطع تعلق کرلیا کہ وہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور شاعری کرتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگوں کی جانب سے شدید طنز و تضحیک کے باوجود وہ ڈٹی ہوئی ہیں کیونکہ انہیں ان کے والدین کا تعاون حاصل ہے۔ 'چاہے معاشرہ کتنا ہی تنگ نظر ہو اگر ایک لڑکی کو اس کے اہل خانہ کا تعاون حاصل ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو توڑ نہیں سکتی۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل