گھر یا گھر سے باہر، پاکستانی بچے جنسی زیادتی سے کہیں محفوظ نہیں

غیر سرکاری ادارے سے حاصل شدہ رپورٹ کے مطابق 2018 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی کل تعداد 2115 تھی جن میں سے ایک چوتھائی کھلے مقامات پر پیش آئے۔

تصویر: انڈپینڈنٹ اردو

بچوں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم ایک غیر سرکاری ادارے ’ساحل‘ کی حالیہ سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں گھر میں یا کسی کونے میں نہیں بلکہ کھلے مقامات پر زیادہ ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسے مقامات میں 47 فیصد واقعات کے ساتھ گلیاں سر فہرست ہیں۔

ساحل نے بدھ کو 2018 کے دوران پاکستان میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کےاعداد وشمار پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی، جس کا نام ’ظالم اعداد 2018‘ ہے۔ اس رپورٹ کو 85 قومی اور علاقائی اخبارات میں شائع ہونے والے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے۔   

رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ دوسری جگہوں کے علاوہ کھلے مقامات پر بھی جنسی زیادتیاں ہوئیں اور ایسے واقعات میں سب سے زیادہ جرائم گلیوں میں ہوئے۔

شہری علاقوں میں عام طور پر شام کے وقت یا دوپہر میں گلیاں سنسان ہو جاتی ہیں اور ایسے میں بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح دیہاتوں میں کھیتوں اور باغات میں ایسے واقعات کی شرح زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔

سنسان اور آبادیوں سے دور ہونے کے باعث قبرستان بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مقامات کے طور پر خطرناک ترین جانے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے جن واقعات میں جگہ کا ذکر ہوا، ان کی تعداد دو ہزار سے زائد تھی۔

ان میں سے 544 واقعات کھلے مقامات پر ہوئے جبکہ 1571 بند جگہوں پر ہوئے۔ کھلے مقامات پر ہونے والے واقعات میں 47 فیصد گلیوں میں ہوئے جبکہ کھیتوں میں ایسے واقعات کی تعداد 39 فیصد رہی۔ جنگلوں میں 16 فیصد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ آٹھ بچے قبرستانوں اور تین باغات میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2017 کے مقابلے میں 2018 کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات میں 11 فیصد اضافہ ہوا۔ 2017 میں ایسے واقعات کی تعداد 3445 تھی جبکہ 2018 میں یہ بڑھ کر 3836 ہوگئی۔ اسی طرح گذشتہ سال ہر روز دس بچے کسی بھی زیادتی کا نشانہ بنے۔

ساحل اخبارات میں رپورٹ ہونے والے واقعات کو جمع کرکے ہر سال یہ رپورٹ جاری کرتی ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزے بانو کے مطابق ایسے جرائم کی تعداد میں اضافہ ایک طرح سے مثبت رویہ ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں اضافے کا مطلب ہے کہ ایسے واقعات زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر والدین اور رشتہ دار بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں خصوصاً جنسی زیادتیوں کو چھپاتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بچوں کے خلاف جرائم میں جنسی زیادتی کے علاوہ کم عمر میں شادیاں، اغوا اور بچوں کا غائب ہونا بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس رپورٹ کے اعداد میں صرف میڈیا میں رپورٹ ہونے والے واقعات شامل کیے جاتے ہیں، جن کے مطابق گذشتہ سال 1046 لڑکے اور 960 لڑکیاں زیادتی کا نشانہ بنیں۔

عمر کے لحاظ سے 11 سے 15 سال کے لڑکے اور لڑکیاں بڑی تعداد میں زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اسی طرح 2018 میں 963 بچوں کو اغوا کیا گیا جبکہ مردوں نے 589 لڑکوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور537 بچوں کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کی گئی۔ 452 بچے لاپتہ ہوئے اور 130 بچوں کی زبردستی شادیاں کی گئیں جبکہ 96 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔

صوبوں کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہوئے جہاں 2403 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ 1012 واقعات کے ساتھ اس سلسلے میں دوسرے نمبر پر رہا۔ خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات کی تعداد 145 رہی جبکہ اسلام آباد میں 130 اور بلوچستان میں 98 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح جموں و کشمیر میں 34 اور گلگت بلتستان میں چھ واقعات رپورٹ ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرموں میں سب سے بڑی تعداد جان پہچان رکھنے والوں کی رہی۔ 1787 افراد نے ایسے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جنہیں وہ کسی بھی طرح جانتے تھے جبکہ 57 اساتذہ اپنے شاگردوں کے خلاف زیادتی کے مرتکب ہوئے۔ 116 ہمسائے اور 73 رشتہ دار بھی اس شیطانی عمل میں ملوث پائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق 22 مولویوں پر بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کے الزامات لگے۔

ماہرین کے مطابق ایسی سالانہ رپورٹیں اگرچہ قومی میڈیا میں جگہ نہیں بنا پاتیں لیکن ان مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے یہ ایک اہم کوشش ہے۔

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ سوشیالوجی کے سربراہ حاضر اللہ کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتیوں کا ذکر ہر سطح اور ہر مقام پر ہونا چاہیے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے معاشرے میں حساسیت پیدا کرنا ہوگی اور اس کے لیے اس لعنت کا ذکر مساجد، سکولوں، گھروں، خاندانوں اور حکومتی سطح پر ہونا ضروری ہے۔ ان کا خیال تھا کہ والدین اور اساتذہ کو بھی بچوں سے زیادتی کے متعلق تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔  پروفیسر حاضراللہ نے کہا کہ زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کی نفسیاتی تھراپی ضروری ہو جاتی ہے تاکہ وہ اس ناخوشگوار تجربے کو بھلا کر دوبارہ سے معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان