کاون کو سدھانے والے فیض محمد کی یادیں

ہاتھیوں کو انسانوں سے مانوس کرنے کی ذمہ داری ان کے مہاوت پر ہوتی ہے، وہ ان کے مائی باپ ہوتے ہیں اور ان کو پال پوس کے بچوں کی طرح جوان کرتے ہیں۔

اس کرہ ارض کی جنگلی حیات میں ہاتھی  وہ جانور ہے جو بچوں کا ساتھی کہلاتا ہے۔

اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود ہاتھیوں کا جوڑا جو کہ کاون اور سہیلی کے نام سے جانا جاتا تھا پاکستان کے بچوں میں مقبول تھا۔

انیس سو اسی کے ابتدائی سالوں میں سری لنکا سے لائے ننے منےہاتھی اور ہتھنی پاکستان کے نامور سیاستدانوں کے بچوں کی خصوصی تفریح کا باعث تھےجن میں سرفہرست جنرل ضیاالحق صدرپاکستان کی صاحبزادی زین ضیا شامل ہیں۔

درحقیقت 1982 میں صدر پاکستان کے دورہ سری لنکا کے دوران یہ ہتھنی کا بچہ زین ضیا کو تحفے میں دیا گیا جو ان کا دل بہلانے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے لاکھوں بچوں کی دلوں کی دھڑکن بن گیا۔

ہاتھیوں کو انسانوں سے مانوس کرنے کی ذمہ داری ان کے مہاوت پر ہوتی ہے، وہ ان کے مائی باپ ہوتے ہیں اور ان کو پال پوس کے بچوں کی طرح جوان کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کاون اور سہیلی کے پھلنے پھولنے میں اسلام آباد چڑیا گھر کےفیض محمد جو کہ وہاں مالی کے فرائض سرانجام دیتے تھے، ان کا ہاتھ تھا۔

فیض محمد نے سری لنکن ہاتھی 'سہیلی' کے ساتھ لائے گئے مہاوت سے چند مہینوں میں یہ کام سیکھ لیا۔

فیض محمد دونوں ہاتھیوں کو اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاتے اور بچوں کی طرح پھل کاٹ کاٹ کے کھلاتے۔

سہیلی کی خوش مزاجی اور کاون کا چڑچڑاپن فیض محمد کو بچپن سے ہی معلوم تھا۔ ان کی کوشش ہوتی کہ وہ دونوں کو یکساں تربیت دیں لیکن سہیلی ہمیشہ کرتب سیکھنے اور انسانوں کے ساتھ گھلنے ملنے میں پہل کرتی اور کاون جو اس سے عمر میں چند سال بڑا تھا دور کھڑا اسے تکتا رہتا۔

وقت پر لگا کر اڑنے لگا، ہاتھیوں کی جوڑی بڑی ہوتی گئی اور فیض محمد بوڑھے ہوتے گئے۔

ایک دن یوں ہوا کہ 'سہیلی' بیمار ہوئی اور چڑیا گھر کے ڈاکٹر نے بے حد کوشش کی لیکن علاج سے افاقہ نہ ہوا اور یوں 'سہیلی' 2012 میں یکایک مر گئی۔ فیض محمد پر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ ان کی ملازمت کا آخری سال تھا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی اور سہیلی کی رفاقت کا بھی یہ آخری سال ہے۔

محکمانہ کارروائی سے قطع نظر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اچھی بھلی 'سہیلی' کو کیا ہوا کیا، اس کو کسی کی نظر کھا گئی؟ فیض محمد اس صدمے سے ایسے دوچار ہوئے کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا اور ان کا دایاں حصہ ہمیشہ کے لیے مفلوج ہوگیا۔

اب کاون بھی ہمیشہ کے لیے ملک سے باہر جا رہا ہے جب کہ فیض محمد کا اکیلا پن شاید مزید بڑھ جائے۔ فیض محمد کو بھی حکومتی توجہ اور امداد کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا