ضیاالحق کی بیٹی کو تحفے میں ملے ہاتھی کی کمبوڈیا منتقلی کا فیصلہ

1985میں پاکستان کے سابق صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل (ریٹائرڈ) ضیا الحق سری لنکا کے سرکاری دورہ پر اہل خانہ کے ہمراہ گئے جہاں سری لنکن حکومت نے ان کی چھوٹی صاحبزادی زین ضیا الحق کو ایک نومولود ایشیائی ہاتھی تحفہ کے طور پر دیا۔

(اے ایف پی)

اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں گذشتہ تیس سال سے موجود ایشیائی نسل کے ہاتھی کاون کا تفریحی مقاصد کے لیے استعمال ترک کر کے اسے کمبوڈیا میں واقع ہاتھیوں کے لیے مخصوص پناہ گاہ منتقل کیا جائے گا۔

کاون کو تفریحی مقاصد کے استعمال سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ مئی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں کیا گیا جس میں عدالت نے کاون کو آزاد کرنے اور اس کے لیے مناسب پناہ گاہ کی تلاش کا حکم صادر کیا تھا۔

عدالتی فیصلے کے بعد اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ نے ہاتھیوں کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس نے کاون کی سبکدوشی اور منتقلی کے لیے کمبوڈیا میں واقع ہاتھیوں کے لیے مخصوص پناہ گاہ (ایلیفنٹس وائلڈ لائف سینکچیوری) کا انتخاب کیا۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے ہفتہ کو میڈیا کو بتایا: جلد ہی کمبوڈیا سے ایک ماہرین کی ٹیم پاکستان پہنچ رہی ہے جو کاون کا طبی معائنہ کرے گی۔

معاون خصوصی نے مزید کہا کہ کاون کو کس طرح اور کب کمبوڈیا لے جایا جائے گا اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ کاون کی سبکدوشی اور کمبوڈیا منتقلی کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔

کاون کی منتقلی کے اخراجات سے متعلق سوال کے جواب میں ملک امین اسلم نے کہا کہ اس کا فیصلہ بھی ابھی ہونا باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام اور خصوصا اسلام آباد کے رہائشی بھاری دل کے ساتھ کاون کو رخصت کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کاون باقی کی زندگی ایک بہتر اور قدرتی ماحول میں بسر کرے۔

کاون کی کہانی

سال 1985 میں پاکستان کے سابق صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل (ریٹائرڈ) ضیا الحق سری لنکا کے سرکاری دورہ پر گئے، دورے میں سابق صدر کے اہل خانہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔

اس دورے کا مقصد اسلام آباد اور کولمبو کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔ اسی جذبے کے تحت سری لنکن حکومت نے جنرل ضیا الحق کی چھوٹی صاحبزادی زین ضیا الحق کو ایک نومولود ایشیائی ہاتھی تحفہ کے طور پر دیا۔ اس ہاتھی کا نام تھا کاون۔

پاکستان آنے کے بعد کاون کا زیادہ وقت اسلام آباد چڑیا گھر میں ہی گزرا جہاں اسلام آباد کے شہری اور ملکی و غیر ملکی سیاح اسے دیکھ کر محظوظ ہوتے رہے۔

چڑیا گھر انتظامیہ نے کاون کی تنہائی کو دیکھتے ہوئے 1990 میں بنگلہ دیش سے سہیلی نامی ہتھنی منگوائی۔ سہیلی لمبے عرصہ تک کاون کی ساتھی کے طور پر اس کے ساتھ رہتی رہی۔ سہیلی کا 2012 میں انتقال ہوا۔

اس وقت کاون کی عمر چھتیس سال بتائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہاتھی عام طور پر چالیس سے پنتالیس سال تک زندہ رہتے ہیں۔

یوں کاون اپنی زندگی کے آخری نو سے دس سال کمبوڈیا کی پناہ گاہ میں آزادی سے گذارنے جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ کاون پاکستان میں موجود واحد ایشیائی نسل کا ہاتھی ہے۔

چڑیا گھر کا ماحول

اسلام آباد کا مرغزار چڑیا گھر پنجروں پر مشتمل چڑیا گھر ہے۔ یہاں حیوانات کو قدرتی ماحول کے بجائے پنجروں میں بند رکھا جاتا ہے جو ان کے لیے نہایت ہی نامناسب اور غیر قدرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ہاتھی جو جسامت کے لحاظ سے ایک بڑا جانور ہے کو زیادہ بڑی جگہ درکار ہوتی ہے بلکہ ہاتھی قدرتی ماحول یعنی جنگل میں زیادہ خوش رہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عام طور پر ہاتھی دن میں پچیس سے دو سو کلومیٹر تک کا فاصلہ پیدل چل کر طے کرتا ہے جب کہ چڑیا گھر کے پنجرے میں ایسا قطعا ممکن نہیں ہوتا۔

اسلام آباد میں پڑنے والی گرمی بھی ایشیائی ہاتھی کاون کے لیے مناسب نہیں ہے۔

ماہرین کے مطابق کاون کئی بیماریوں میں مبتلا لگتا ہے اور اس کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں ہے۔

کاون کی بعض غیر معمولی اور پرتشدد حرکتوں کے باعث 2012 میں اسے کچھ عرصے کے لیے زنجیروں سے بھی باندھ کر رکھا گیا تھا تاہم ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کے بعد زنجیریں ہٹا دی گئی تھیں۔

ملک امین اسلم نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت اسلام آباد میں واقع چڑیا گھر کو سفاری چڑیا گھر میں تبدیل کرنے کا پلان بنا رہی ہے جس میں جانوروں کو بہت بڑے علاقوں میں رکھا جائے گا اور انہیں زیادہ قدرتی ماحول مہیا کیا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات