میرپور خاص میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے توہین مذہب کے مقدمے میں نامزد عمرکوٹ سول ہسپتال کے ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کی پولیس تحویل میں موت کے مقدمے میں سابق ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (ڈی آئی جی) جاوید جسکانی سمیت چار پولیس اہلکاروں کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا ہے۔
ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر قتل کیس کی پیروی کرنے والے ان کے وکیل ابراہیم کنبھر کے مطابق عدالت نے سابق ڈی آئی جی جاوید جسکانی سمیت چار پولیس اہلکاروں کو 29 جولائی کو اشتہاری مجرم قرار دیا تھا اور عدالتی فیصلے کی کاپی بدھ (13 اگست) کو جاری کی گئی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں وکیل ابراہیم کنبھر نے کہا کہ اس مقدمے میں سابق ڈی آئی جی میرپور خاص جاوید جسکانی، اس وقت کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) میرپور خاص کے ریڈر انسپکٹر عبدالستار سموں، لکھمیر اور محمد صدیق کو اشتہاری مجرم قرار دیا ہے۔
ابراہیم کنبھر کے مطابق: ’عدالت نے ہدایت کی ہے کہ اشتہاری قرار دیے گئے مجرموں کے متعلق اخبارات میں اشتہارات دیے جائیں۔ اگلی سماعت پر متعلقہ ایس ایس پی اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کریں گے کہ ملزمان کی گرفتاری کے کیا اقتدامات کیے گئے۔ ان کی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔‘
عدالت نے مزید سماعت 29 اگست تک ملتوی کر دی۔
ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کا قتل کب اور کیسے ہوا؟
یہ واقعہ ستمبر 2024 میں پیش آیا، جس میں عمرکوٹ سول ہسپتال کے سینیئر ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر پر الزام لگا کہ انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر توہین آمیز مواد اپ لوڈ کیا، جس کے بعد علاقہ مکینوں نے عمرکوٹ میں ان کی گرفتاری کے لیے احتجاج کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے خلاف 17 ستمبر کو مقامی مسجد کے پیش امام کی مدعیت میں توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
تاہم 40 سالہ ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر اپنے فیس بک پروفائل پر اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کی تھی۔
18 ستمبر 2024 کی شام عمرکوٹ پولیس کی ٹیم نے ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کو کراچی کے ایک ہوٹل سے گرفتار کیا اور 18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب ضلع میرپور خاص کے تھانے سندھڑی کی حدود میں مبینہ پولیس مقابلے میں ان کی موت کی خبر سامنے آئی۔
جب ان کی لاش کو ضلع عمرکوٹ میں واقع ان کے آبائی گاؤں جاہینرو لے جایا گیا تو مقامی افراد نے لاش کی گاؤں میں تدفین کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد لاش کو کئی مقامات پر لے جایا گیا مگر مشتعل افراد نے تدفین نہیں ہونے دی۔
جب ان کے اہل خانہ نے لاش کو دوبارہ گاؤں لاکر تدفین کی کوشش کی تو اسے مشتعل افراد نے آگ لگا دی۔
سندھ کی سول سوسائٹی نے ڈاکٹر شاہ نواز کی پولیس تحول میں موت کے خلاف عمرکوٹ پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا تھا، جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔
صوفی فنکار مانجھی فقیر اور دیگر نے ڈاکٹر شاہ نواز کی قبر پر جمع ہو کر ان کی غائبانہ جنازہ نماز ادا کرنے کے ساتھ ان کی قبر پر پھول اور اجرک چڑھائے اور صوفی کلام پیش کیے۔
سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد حکومت سندھ نے پولیس کی ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی، جس نے 27 ستمبر کو انکشاف کیا کہ ڈاکٹر شاہ نواز کو پولیس حراست میں جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔
اس رپورٹ کے بعد سابق ڈی آئی جی میرپور خاص جاوید جسکانی، ایس ایس پی میرپور خاص محمد اسد چوہدری اور ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ کو معطل کر دیا گیا تھا۔
ملزمان کی گرفتاری نہ ہونے پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا، جس کے بعد ڈی آئی جی جاوید جسکانی سمیت 45 افراد کے خلاف سندھڑی تھانے میں مقدمہ درج کروایا گیا۔
مقدمے میں ایس ایس پی میرپور خاص اسد چوہدری، ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ، ایس ایچ او سندھڑی نیاز کھوسو، سی آئی اے انچارج اور مقامی مذہبی رہنما پیر عمر جان سرہندی کو نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں قتل، انسداد دہشت گردی اور ہنگامہ آرائی کی دفعات کے ساتھ یہ لکھا گیا تھا کہ پولیس تحویل میں موت سے قبل ڈاکٹر شاہ نواز کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارے مگر ملزمان گرفتار نہیں ہوسکے۔