سندھ کے ضلع میر پور خاص کی پولیس نے جمعرات کو بتایا ہے کہ ضلع عمر کوٹ میں سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں نامزد ملزم ’پولیس مقابلے‘ میں مارا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس میر پور خاص کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری نے کہا کہ ’یہ واقعہ میرپورخاص ضلع کے سندھڑی تھانے کی حدود میں گذشتہ رات پیش آیا۔‘
کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری کے مطابق: ’سندھڑی تھانے کی پولیس معمول کے گشت کے بعد پولیس پکٹ پر پہنچی تو موٹرسائیکل سوار دو مسلح افراد نے پولیس پارٹی پر فائرنگ شروع کر دی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس کی جوابی فائرنگ میں ایک ملزم زخمی اور دوسرے کی موت ہو گئی۔ لاش ہسپتال منتقل کرنے پر مرنے والے ملزم کی شناخت توہین مذہب کے مقدمے میں نامزد ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کے طور پر ہوئی۔‘
جب اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سے پولیس فائرنگ میں زخمی ملزم کی تفصیلات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں جواب میں کہا : ’مجھے نہیں معلوم کہ ملزم کا کیا نام ہے اور وہ ابھی کہاں ہے۔‘
کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری کے مطابق ملزم کی لاش کو صبح پولیس کے ساتھ عمرکوٹ روانہ کر دیا گیا ہے۔
مبینہ توہین مذہب کے مقدمے میں نامزد ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کا تعلق عمرکوٹ ضلع کے گاؤں جاہینرو سے تھا۔
گاؤں جاہینرو کے رہائشی بزرگ وڈیرو قاسم ساند نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا : ’صبح پولیس لاش لے کر گاؤں آئی، مگر گاؤں کے لوگوں نے پولیس کو لاش واپس لے جانے پر مجبور کر دیا۔
’اس کے بعد پولیس لاش اپنے ساتھ لے گئی۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) عمرکوٹ آصف رضا سے رابطہ کیا مگر انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) عمرکوٹ نوید لاڑک کے مطابق ’یہ واقعہ منگل کی شام کو پیش آیا جب ملزم کی جانب سے مبینہ طور پر فیس بک پر توہین آمیز مواد پوسٹ کیا گیا۔ جس کے خلاف بڑی تعداد میں لوگوں نے عمرکوٹ شہر میں جمع ہو کر احتجاج کیا۔
’مشتعل افراد نے پولیس موبائل کو آگ لگانے کے ساتھ ملزم کے کلینک میں توڑ پھوڑ بھی کی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوید لاڑک کے مطابق: ’عمرکوٹ پولیس نے فوری نوٹس لیتے ہوئے علمائے کرام سے رابطہ کیا اور زکریا مسجد کے پیش امام صابر علی سومرو کی مدعیت میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی (توہین رسالت) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔‘
اس واقعے کے بعد بدھ کو عمرکوٹ شہر میں ملزم کی گرفتاری کے لیے شٹرڈاؤن ہڑتال کر کے پریس کلب کے سامنے دھرنہ دیا گیا۔
جبکہ عمرکوٹ شہر کے علاوہ ضلع کے ڈھورونارو، نبی سر روڈ سمیت مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا تھا۔
توہین مذہب کا معاملہ پاکستان میں انتہائی حساس نوعیت کا رہا ہے اور بعض واقعات میں لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود ملزم کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان کے قانون کے مطابق توہین مذہب کا الزام ثابت ہونے پر اس جرم کی سزا موت ہے۔
گذشتہ ہفتے کوئٹہ میں پولیس تھانے میں بند توہین مذہب کے 52 سالہ ملزم عبد العلی عرف سخی لالا کو ایک پولیس اہلکار نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے جمعرات کو رپورٹ کیا ہے کہ توہین مذہب کے الزام میں مارے گئے عبد العلی کے اہل خانہ نے قتل کرنے والے پولیس اہلکار کو معاف کر دیا ہے۔