دنیا کے دیگر حصوں کی طرح بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی محرم پورے مذہبی جوش و جذبے سے منایا گیا۔ اس دوران مجالس منعقد کی گئیں اور جلوس نکالے گئے۔
اس موقعے پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے فوٹو جرنلسٹ سید شہریار نے انڈپینڈنٹ اردو کے لیے خصوصی تصویر کشی کی جس سے اس علاقے کی مخصوص مذہبی ثقافت پر روشنی پڑتی ہے۔
سری نگر کی مشہورِ زمانہ ڈل جھیل میں محرم کا جلوس کشتیوں پر نکلتا ہے۔ اس جلوس کے منتظم غلام رسول کہتے ہیں: ’اس منفرد جلوس کی روایت ہمیں اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے۔ یہ جلوس 161 سال سے نکالا جا رہا ہے اور یہ عسکریت پسندی کی انتہا کے دوران بھی نہیں رکا۔‘
14 سالہ رضاکار کشتی جلوس کے شرکا میں ماسک تقسیم کر رہے ہیں۔ وہ ایک این جی او سے وابستہ ہیں۔
سری نگر کے پرانے علاقے میں واقع اپنے گھر میں نو سالہ محمد اور 11 سالہ ماہ نور پرچم تیار کر رہے ہیں۔
بھارتی سکیورٹی فورسز نے نو محرم کو سری نگر کے شام سواری علاقے میں ماتمی جلوس کو یہ کہہ کر روک دیا کہ اس سے کرونا وائرس پھیلنے کا خدشہ ہے۔ جلوس کے ایک شریک نے بتایا ہے کہ یہ محض بہانہ ہے، کیوں کہ پچھلے سال بھی محرم کا جلوس نہیں نکالنے دیا گیا تھا حالانکہ اس وقت کرونا نہیں تھا۔
سری نگر کے علاقے حسن آباد میں بچے امام بارگاہ حسینیہ کی دیواروں کو سیاہ کپڑے سے ڈھک رہے ہیں۔ اختر حسین ڈار کہتے ہیں کہ ’ہم پچھلے 20 برس سے ہر محرم کو اس امام بارگاہ کو سیاہ کپڑے سے ڈھک دیتے ہیں۔‘
ڈل جھیل کے قریب سے گزرنے والی سڑک پر محرم سے متعلق جھنڈے لگائے جا رہے ہیں۔ علی محمد یہ جھنڈے لگانے والے رضاکار گروپ کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’ہم محرم سے دس دن پہلے جھنڈے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ سب سے بڑا جھنڈا 65 فٹ اونچا ہے۔‘
سری نگر کے علاقے حسن آباد کے ایک گھر میں خوراک اور ماسک پہنچائے گئے۔ تقسیم کنندہ علی سیف الدین کہتے ہیں: ’ہر سال ہم چار محرم کو مرثیہ خوانی کے لیے جمع ہوتے ہیں، جس کے بعد شرکا میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔‘