پاکستان کے لیے فرانس سے تجارتی، سفارتی تعلقات معطل کرنا ممکن؟

فرانس میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی عوامی تشہیر کے خلاف پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک سے شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔  

فرانس میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی عوامی تشہیر کے خلاف پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک سے شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔  

پاکستانی پارلیمان نے وفاقی حکومت سے فرانس میں تعینات پاکستانی سفیر کو واپس بلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

کئی حلقے پیرس سے پاکستانی سفیر کی واپسی اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی صورتوں میں پاکستان کے لیے ممکنہ نقصانات سے متعلق سوالات اٹھا رہے ہیں۔

ایسی دونوں صورتوں میں پاکستان کے لیے پنہاں ممکنہ نقصانات یا فوائد کا اندازہ لگانے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے معاشی اور سفارتی امور کے ماہرین کی رائے حاصل کی۔

دونوں میدانوں کے ماہرین ہر دو صورتوں میں پاکستان کے لیے کسی نقصان کی غیر موجودگی پر متفق نظر آتے ہیں۔

ماہرین کے خیال میں کسی بھی دو ممالک کے درمیان تجارتی اور سفارتی تعلقات کا بالکل ختم ہونا حکومتی سطح پر ممکن نہیں ہو سکتا۔

کراچی میں قائم بزنس مین اینڈ انٹلیکچول فورم کے سربراہ میاں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’ایسے مطالبات عوامی سطح تک ہی محدود رہتے ہیں، حکومتیں ایسے فیصلے نہیں کر سکتیں۔‘

ان کے خیال میں فرانس کے ساتھ تجارتی یا سفارتی تعلقات کی معطلی پاکستانی معیشت پر کوئی بہت برا اثر نہیں چھوڑے گی۔

فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان فرانس سے 420 ملین امریکی ڈالرز کی سالانہ درآمدات کرتا ہے جبکہ تقریباً اتنے ہی حجم کی برآمدات بھی ہر سال اس یورپی ملک کو جاتی ہیں۔ 

پاکستان فرانس سے دوائیں، کاسمیٹکس، مشینری، نیوکلئیر ری ایکٹرز، ڈیری پراڈکٹس، ہوائی جہاز اور ان کے پارٹس، کیمیکلز، الیکٹرانکس کا سامان اور لوہا/سٹیل وغیرہ در آمد کرتا ہے جبکہ فرانس جانے والی پاکستانی مصنوعات میں چاول، اناج اور گارمنٹس شامل ہیں۔

لندن کے اخبار فنانشل ٹائمز کے پاکستان میں نمائندے فرحان بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ بظاہر پاکستان ایسی چیزیں درآمد نہیں کرتا جنہیں اشد ضرورت کی اشیا کہا جا سکے اس لیے بائیکاٹ کی صورت میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان فرانس سے فوجی سازوسامان بھی حاصل کرتا رہا ہے جس میں میراج لڑاکا طیارے اور اگوسٹا آبدوزیں سرفہرست ہیں۔

دفاعی امور کے ماہر ائر وائس مارشل (ر) فائز امیر نے اس سلسلے میں کہا کہ میراج طیارے اب کافی پرانے ہو گئے ہیں تاہم پاکستان ائیر فورس کے استعمال میں ہیں اور فرانس سے ان کے پرزے حاصل کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرانسیسی بائیکاٹ کے باوجود حکومتی سطح پر ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا سکتا۔

’میرا نہیں خیال کہ حکومت پاکستان سرکاری سطح پر فرانس سے تجارت بند کرے گی۔‘

فائز امیر نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے فوجی ساز و سامان کے حصول پر پابندی بعید از قیاس ہے اور دنیا کا کوئی ملک ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا۔

اسی بارے میں فرحان بخاری کہتے ہیں کہ فوجی ساز و سامان کے سلسلے اب پاکستان کا زیادہ انحصار چین پر ہے اس لیے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی صورت میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑنے لگا۔

فرحان بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت ساری غیر ملکی چیزیں سمگلنگ کے ذریعے بھی پہنچ جاتی ہیں۔ ’بائیکاٹ کی صورت میں صرف یہ ہو گا کہ ریاست کا ریونیو تھوڑا بہت کم ہو جائے گا لیکن عوام کو فرانسیسی مصنوعات پھر بھی دستیاب ہوں گی۔‘

فرانس سے سفیر کی واپسی

اس وقت فرانس میں مستقل پاکستانی سفیر موجود نہیں ہے اور پاکستانی سفارتخانے کا انتظام قائم مقام سفیر چلا رہے ہیں۔

اسلام آباد میں پاکستانی وزارت خارجہ کی سابق ترجمان عائشہ فاروقی نے جنوری 2021 میں پیرس میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے چارج سنبھالنا ہے تاہم اس وقت وہ اسلام آباد میں ایک پروموشن کورس میں شرکت کر رہی ہیں۔ 

سابق سفارتکار سید حسن جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے اپنا سفیر واپس بلا لے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’لیکن سفارتی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ملکوں نے دوسرے ممالک سے اپنے سفیر واپس بلائے۔‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ سفیر کی واپسی کی صورت میں سفارت خانہ بھی بند کر دیا جائے اور اگر سفارت خانہ بند نہیں ہوتا تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑتا۔

’دراصل سفارتخانہ ایک منی کابینہ ہوتی ہے جس میں ہر شعبے کے اتاشی موجود ہوتے ہیں اور سفیر نہ بھی ہو تو وہ کام جاری رکھ سکتے ہیں۔‘

سید حسن جاوید کا خیال تھا کہ عوامی مطالبے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان فرانس سے اپنا سفیر واپس بلا سکتا ہے لیکن اگر سفارتخانہ موجود رہے تو تجارتی اور سفارتی تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ 

عمران خان کا مسلم دنیا کو خط

وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کے روز اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی کارروائی کے لیے خط لکھا ہے۔

عمران خان نے ٹوئٹر پر دو صفحات پر مشتمل خط کی تصویر شیئر کرتے ہوئے رہنماؤں سے اسلاموفوبیا کے خلاف فوری طور پر کام کرنے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ ’مسلم ریاستوں کے رہنما غیر مسلم ریاستوں خصوصاً مغربی ریاستوں میں بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا کے مقابلہ کے لیے عملی اقدامات کریں۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’آج امت کو بڑھتی ہوئی تشویش اور بےچینی کا سامنا ہے جب مغربی دنیا بالخصوص یورپ میں ہمارے پیارے نبی پر طنز اور اسلاموفوبیا کے جذبات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔‘

عمران خان نے کہا کہ قیادت کی سطح پر حالیہ بیانات اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات یورپی ممالک میں پھیلتے ہوئے اسلامو فوبیا کے بڑھنے کے عکاس ہیں جہاں متعدد مسلمان آباد ہیں۔

’چھپے اور بالواسطہ امتیازی سلوک‘ کے بارے میں  انہوں نے ذکر کیا کہ یورپ میں مساجد کو بند کیا جا رہا ہے اور مسلم خواتین کو عوامی حلقوں میں اپنی پسند کا لباس پہننے کے حق سے انکار کیا جا رہا ہے جبکہ راہبوں اور کاہنوں نے اپنے مذہبی لباس کو ظاہر کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان