ہوسکتا ہے غلط فیصلے کیے ہوں لیکن ہم قانون پر چلتے ہیں: فائز عیسیٰ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو الوداع کہنے کے لیے فل کورٹ ریفرنس ہوا، جس میں ان کے ساتھ ججز، وکلا اور دیگر شخصیات شریک ہوئیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں الوداعی ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ کہ ان کی آزادی میں چند گھنٹے رہ گئے (سپریم کورٹ آف پاکستان/ سکرین گریب)

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو الوداع کہنے کے لیے جمعے کو فل کورٹ ریفرنس ہوا، جس میں ان کے ساتھ ججز، وکلا اور دیگر شخصیات شریک ہوئیں۔

جسٹس عیسیٰ نے 17 ستمبر، 2023 کو 29ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھایا تھا، ان کے آج رخصت ہونے کے بعد نئے چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی کل حلف اٹھائیں گے۔

فل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کیا گیا۔ ریفرنس میں سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس عائشہ ملک، اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان شریک نہیں ہوئے۔

ریفرنس کے دوران جسٹس آفریدی اور جسٹس امین الدین خان جانے والے چیف جسٹس کے برابر میں براجمان تھے، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی شریک تھے۔

ریفرنس سے جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس آفریدی کے علاوہ اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان، پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین فاروق ایچ نائیک اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے بھی خطاب کیا۔

چیف جسٹس کا اردو میں خطاب

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اردو میں خطاب میں کہا کہ ان کی آزادی میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں، آج وہ آئین و قانون کی بات نہیں کریں گے۔ حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو یہاں موجود نہیں میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

قاضی فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ میں انگریزی اخبار میں لکھتا تھا کہ ایک دن چیف جسٹس نے بلایا تو مجھے لگا کہ شاید میری کوئی تحریر انہیں ناگوار گزری ہے۔

چیف جسٹس افتخار چوہدری نے مجھے بلا کر کہا کہ بلوچستان میں کوئی جج نہیں لہٰذا میں جا کر ذمہ داریاں سنبھال لوں۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں۔ 

’سچ کیا ہوتا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ہم تو صرف کاغذوں پر چلتے ہیں۔ کاغذ کے ٹکڑوں پر جو لکھا ہوتا ہے، وہ ایک پارٹی کو فائدہ دیتا ہے تو دوسرے کو نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ اور اس پروفیشن دونوں سے وابستگی 42 سال کی ہے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ شکر ہے ان کی اہلیہ موجود ہیں۔ میں انہیں بتاتا کسی نے میری تعریف کی تو انہیں یقین نہ آتا۔

ریفرنس سے خطاب میں نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اس وقت میرے اندر ملے جلے رجحانات ہیں، ایک طرف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر دل اداس ہے تو دوسری طرف خوشی بھی ہے کہ وہ اچھی صحت کے ساتھ ریٹائر ہو رہے ہیں۔

’جسٹس فائز عیسیٰ کو اکسائیں گے تو ان کے غصہ سے بچنا مشکل‘

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو بہت اچھا انسان پایا، وہ بہت نرم مزاج انسان ہیں، اگر آپ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو اکسائیں گے تو پھر ان کے غصے سے بچنا مشکل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں نے بھی ایک مرتبہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے غصے کا سامنا کیا ہے، میرا یہ تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔‘ اس موقعے پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مسکراتے رہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے مزید کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کیے اور ججز میں اختلاف رائے کو تحمل کے ساتھ سنا۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے سرکاری خرچ پر ظہرانہ لینے سے انکار کیا، ظہرانے کے خرچ کا سارا بوجھ مجھ پر پڑا تو میں نے اپنے ساتھی ججز سے کہا آپ بھی شیئر کریں۔

 

’چیف جسٹس نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کا حدود میں کام کرنا یقینی بنایا‘

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود کو بطور قابل وکیل منوایا، جسٹس فائز عیسیٰ نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کی بھی نمائندگی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے بلوچستان میں تعلیمی نظام کی روانی یقینی بنائی، انہوں نے صوبے میں جنگلی حیات کو بچانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس بلوچستان پانچ سال خدمات انجام دیں اور خواتین کے حقوق کے لیے کردار ادا کیا۔

منصور اعوان نے کہا کہ چیف جسٹس نے یقینی بنایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ چیف جسٹس ہمیشہ بنیادی حقوق، آزادی اظہار اور خواتین کے حقوق کے علم بردار رہے۔

انہوں نے متعدد تاریخی فیصلے دیے، فیض آباد دھرنا کیس میں قانون کے مطابق اور پرامن احتجاج کا تاریخی فیصلہ دیا، چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو بھی واضح کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان