پاکستان نے حال ہی میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کا اہتمام کیا لیکن اس اجلاس میں افغانستان کو مدعو نہ کرنے کی قابل ذکر حقیقت نے دونوں ممالک کے تعلقات کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو مزید واضح کر دیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے شدید تناؤ کا شکار ہیں اور افغانستان کو نظر انداز کرنے کا تازہ ترین اقدام اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد سامنے آیا۔
اس تقریر میں پاکستان نے پہلی بار باضابطہ طور پر کابل حکومت پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کو پناہ دینے اور ان کی سرپرستی کا الزام عائد کیا جس سے انہیں پاکستانی افواج اور تنصیبات پر حملے کرنے کا موقع ملا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ جب اسلام آباد نے طالبان کو بڑے عالمی فورم پر ذمہ دار ٹھہرایا۔ مزید برآں چند دن بعد پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی جنرل اسمبلی میں طالبان حکومت پر تنقید کی۔
اسلام آباد نے طالبان کی عالمی تنہائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں ہونے والے عسکریت پسندانہ حملوں کے معاملے پر واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔
لیکن طالبان کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروپ کی حمایت سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ کچھ نہیں۔ بلکہ اس کے برعکس، انہیں ایک اہم ہمسایہ ملک کی حمایت اور ہمدردی سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
طالبان کو ایسی عسکریت پسند تنظیم کی حمایت کیوں کرنی چاہیے جو موجودہ حالات میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی؟ درحقیقت ٹی ٹی پی، طالبان کے لیے بوجھ بن چکی ہے۔
لیکن اسلام آباد اور کابل کے درمیان مسلسل تناؤ اور شبہات کی وجہ سے دونوں فریق دو طرفہ تعلقات میں موجود مسائل کو حل کرنے کے لیے معنی خیز مذاکرات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
طالبان نے خود کو عالمی مسائل جیسے خواتین کے کام کرنے کے حقوق اور لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر بات چیت نہ کرنے کا انتخاب کیا جس کے باعث وہ صورت حال کی سنگینی کو محسوس کرنے میں ناکام رہے لیکن اس کے باوجود ان کی حکومت نے کئی دیگر محاذوں پر قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں۔
مثال کے طور پر نئی نہر کھولنا، نئی سڑکیں بنانا، اور ایک نئے شہر کی تعمیر کا آغاز۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر اسلام آباد اور کابل کے درمیان بہتر افہام وتفہیم اور قریبی تعاون ہوتا تو اس بات کی امید اور توقع کی جا سکتی تھی کہ طالبان کی پالیسیوں میں لچک لا کر ملک کی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے نئے اقدامات ممکن ہیں۔
حیران کن طور پر، پاکستان، جس کے اپنے مغربی ہمسایہ ملک افغانستان میں امن اور استحکام کے حوالے سے اہم مفادات وابستہ ہیں، نے طالبان قیادت خاص طور پر ہبت اللہ اخونزادہ کے ساتھ بھرپور رابطے کے فوری اقدام کو نظر انداز کر دیا ہے تاکہ تسلیم کرنے کے مسئلے پر جاری تعطل کو ختم کیا جا سکے۔
ایک طرف، پاکستان میں امیدیں ترکمانستان سے گیس کی فراہمی اور تاجکستان سے بجلی درآمد کرنے کے ممکنہ مفادات پر ٹکی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ خواب افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کیے بغیر ناممکن ہے۔
پھر کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ طالبان پاکستان کی جانب سے بار بار آنے والے دشمنی، سرکشی اور توہین آمیز اشاروں کا مثبت جواب دیں گے؟
اسلام آباد کی کیا سوچ ہے جب وہ ایک قریبی ہمسایہ ملک کے ساتھ، جو اپنی تعمیر نو اور بحالی کے بڑے ایجنڈے کا سامنا کر رہا ہے، وہ جنگجویانہ پالیسی اپناتا ہے؟
پاکستان بہتر راستے کا انتخاب کر سکتا تھا۔ اسلام آباد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
انڈیا، ایران اور اب افغانستان کے ساتھ خراب تعلقات پاکستان کی اس ساکھ کو مزید نمایاں کرتے ہیں کہ وہ عسکریت پسندی، حکمرانی کے بحران، سویلین بالادستی کے فقدان اور بھاری قرضوں جیسے کئی مسائل سے دوچار ہے۔
افغانستان کے پاس ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کی معدنی دولت موجود ہے اور یہ صرف ثابت شدہ ذخائر کی مالیت ہے۔ چین تانبے، تیل، گیس اور دیگر شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
افغانستان وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون کو وسعت دے رہا ہے اور اس کی ایران کو برآمدات پہلے ہی 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔
خطے میں صرف ایک ملک ہے جہاں اقتصادی ترقی کا پہیہ الٹا چل رہا ہے اور وہ پاکستان ہے جہاں دو طرفہ تجارت نئی کم ترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔
اشیا کی سرحد پار نقل و حرکت اور تجارت کو ہموار کرنے کی بجائے نئی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ خراب ہونے والی اشیا جیسے کہ خوراک اور سبزیوں کو ٹرکوں سے اتار کر ضائع کرنا پڑتا ہے جس سے تاجروں کو بھاری نقصان ہوتا ہے۔
ویزے جاری کرنے میں چار سے چھ ماہ لگتے ہیں، جس سے سرحد کی دوسری طرف کی آبادی کو شدید مایوسی اور تکلیف ہوتی ہے۔ یہ پاکستان کی طرف سے بدانتظامی، وژن اور عملی سوچ کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔
جتنی جلدی ان مسائل کو حل کیا جائے اور پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، اتنا ہی بہتر ہو گا۔ دریں اثنا افغانستان وسطی ایشیائی ممالک، ایران، انڈیا، ترکی، روس اور بلاشبہ چین جیسے نئے اتحادیوں اور دوستوں کی تلاش جاری رکھے گا۔ دوسری جانب پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا۔
رستم شاہ مہمند افغانستان اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں۔ وہ افغانستان میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور ایک دہائی تک چیف کمشنر برائے مہاجرین کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔