گذشتہ سال اکتوبر کے آغاز میں حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیرملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے کا آغاز کیا تھا اور تقریباً ایک سال بعد اب تک سات لاکھ سے زائد افغان شہری اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔
یہ واپسی رضاکارانہ نہیں تھی۔ کچھ افغان شہریوں کو زبردستی ملک بدر کیا گیا جبکہ دیگر گرفتاری اور بے دخلی کے خوف سے پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والے بعض افغان نوجوانوں نے اس سے پہلے کبھی افغان سرزمین پر قدم نہیں رکھا تھا۔
جرمنی میں قائم تھنک ٹینک ’افغانستان اینالیسٹ نیٹ ورک‘ نے وطن واپس پہنچنے والے کچھ ایسے کی افغان خاندانوں سے بات کر کے ان کے واپسی پر حالات جاننے کی کوشش کی ہے۔
صوبہ بلخ سے تعلق رکھنے والے گل محمد پاکستان سے واپس آنے والے ان لاکھوں افغانوں میں ایک ہیں جو 15 ستمبر 2023 سے 16 ستمبر 2024 کے درمیان افغانستان واپس آئے تھے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزینہ (یو این ایچ سی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ افغان مقیم ہیں۔
یہ ان تین کروڑ افغان باشندوں کا تقریباً دسواں حصہ ہے جو یہاں پناہ گزینوں کے طور پر رہ چکے ہیں۔
1980 اور 1990 کی دہائیوں میں افغانستان میں جنگ کے مختلف مراحل کے دوران لاکھوں افغان باشندے تحفظ تلاش کرنے کے لیے مشرق کی جانب فرار ہوئے تھے۔
اس کے بعد سے زیادہ تر افغان شہری واپس آگئے جیسا کہ رضاکارانہ وطن واپسی کا آغاز 1980 کی دہائی کے اواخر میں ہوا۔
حکام کے مطابق افغان طالبان کے دوسری بار کابل پر کنٹرول کے بعد اگست 2021 سے 31 جنوری 2023 تک کے 17 مہینوں میں چھ لاکھ افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوئے۔
اس اضافی بوجھ کے بعد پاکستانی حکومت نے تین اکتوبر 2023 کو افغان پناہ گزینوں سمیت تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی ملک بدری کا سلسلہ شروع کیا۔
پاکستان ملک بدری کے خوف سے چھوڑا
گل محمد کی طرح محمد اسحاق بھی اسی سال پاکستان چھوڑ گئے کیونکہ انہیں ملک بدر کیے جانے کا خدشہ تھا۔
یہ سب 1980 کی دہائی سے پاکستان میں مقیم تھے۔ حالانکہ گل محمد کا خاندان 37 سال سے پاکستان میں رہ رہا تھا اور وہ اپنے رجسٹرڈ خاندان کے واحد غیر رجسٹرڈ رکن تھے۔
صوبہ قندھار سے تعلق رکھنے والے آٹھ بچوں کے والد ہاشم خان 43 سال سے پاکستان میں مقیم تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس لیے واپس لوٹے کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ انہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ پاکستان میں رجسٹرڈ تھے اور پی او آر کارڈ رکھتے تھے، انہیں زبردستی ملک بدر کر دیا جائے گا۔
آدھی قیمت پر سامان فروخت
ہاشم خان جلاوطنی سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے اپنا سب کچھ اس کی آدھی قیمت پر فروخت کر دیا۔
ان کے بقول: ’میرے پاس ایک گائے تھی جس کی قیمت چار لاکھ پاکستانی روپے تھی لیکن اس افرا تفری میں اس کو دو لاکھ روپے میں فروخت کر پایا۔‘
پانچ بچوں کے والد حشمت خان 42 سال سے پاکستان میں مقیم تھے جو گذشتہ موسم سرما میں خود وطن لوٹ آئے لیکن خداداد 38 سال سے پاکستان میں ایک غیر دستاویزی پناہ گزین کے طور پر مقیم تھے جو پاکستانی پولیس کے ہاتھوں اپنے ایک بیٹے کی گرفتاری کے بعد پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
واپسی پر مسائل؟
افغانستان واپس آنے والوں کے لیے مکانات اور رہائش کا حصول ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سیو دی چلڈرن سروے کے مطابق واپس لوٹنے والے افغان باشندوں میں سے صرف ایک تہائی کے پاس رہنے کی جگہ تھی۔
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار اس سے بھی بدتر تھے جن کے مطابق صرف 17 فیصد واپس آنے افراد کو ہی چھت میسر تھی۔
واپس آنے والوں کی اکثریت اپنی جائیدادیں کھو چکے تھے۔ کچھ لوگ غفلت اور وقت گزرنے کی وجہ سے یا جنگ کی تباہی کی وجہ سے اپنی جائیداد کھو چکے تھے یا ان ہی کے رشتہ دار ان پر قابض ہو چکے تھے۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق واپس جانے پر افراد کی اکثریت نے اپنی آبائی علاقوں میں نہ رہنے کا انتخاب کیا کیونکہ وہاں ملازمت کے مواقع نہیں تھے یا ان کے پاس مکان بنانے کے لیے کافی رقم نہیں تھی۔
صوبہ لغمان سے تعلق رکھنے والے محمد اسحاق اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے رہ رہے ہیں۔
ان کے بقول: ’میرے پاس رہنے کے لیے مکان نہیں ہے۔ ہمارے ایک رشتہ دار نے مجھے عارضی طور پر شہر کے مضافات میں کچھ زمین دی ہے۔ یہاں صرف چاردیواری ہے جہاں میں نے ایک خیمہ لگایا ہے اور ہم اسی خیمے میں رہتے ہیں۔‘
وہ ایسا کرنے والے واحد شخص نہیں ہے۔ سیو دی چلڈرن سروے کے مطابق تقریباً چھ میں سے ایک واپس آنے والے خاندان خیموں میں رہ رہے ہیں۔
بلخ سے تعلق رکھنے والے گل محمد نے ایک مکان کرائے پر لیا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ وہ بمشکل ہی اس کا کرایہ ادا کرنے اور اپنے چھ بچوں کا پیٹ پالنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
کوئٹہ سے واپس لوٹنے والے ہاشم خان نے اے اے این کو بتایا کہ ان کے پاس نہ مکان ہے اور نہ ہی زمین۔
ہاشم نے کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ ’امارت اسلامیہ‘ واپس آنے والوں کو رہائش فراہم کرے گی لیکن اب تک کسی نے انہیں کچھ نہیں دیا۔
روزگار کی کمی
پاکستان سے افغانستان واپس آنے والوں کو ملازمت کے مواقع اور امداد کی کمی جیسے دو اہم مشکلات درپیش ہیں۔
سیو دی چلڈرن کے سروے میں شامل تقریباً نصف (47 فیصد) ایسے افراد نے کہا کہ افغانستان میں ان کے لیے روزگار نہیں ہے۔
81 فیصد نے کہا کہ ان کے پاس ایسی کوئی مہارت نہیں ہیں جس سے وہ اپنا اور خاندان کا پیٹ پال سکیں۔
ہاشم خان نے بتایا کہ انہوں نے ایک ڈھابہ کھولنے کا انتظام کیا ہے تاہم اس کی کمائی ان کے خاندان کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی تھی۔
انہوں نے بتایا: ’میں نے ڈھائی ہزار افغانی میں ایک کیبن کرائے پر لیا ہے اور میں وہاں مصالحے بیچ رہا ہوں کیونکہ مجھے پاکستان میں اس کاروبار کا تجربہ ہے۔
’لیکن میں اتنی رقم نہیں کما سکتا کہ اپنے خاندان کا پیٹ پال سکوں۔ میں روزانہ 150 سے 200 افغانی کماتا ہوں جو کہ مکان اور کیبن کا کرایہ ادا کرنے کے لیے مشکل سے کافی ہیں۔ ہم یو این ایچ سی آر کی دی ہوئی رقم سے کھانا خرید رہے ہیں۔‘
حشمت خان بھی ایسے خوش نصیب افراد میں شامل ہیں جو اپنے لیے نوکری تلاش کرنے میں کامیاب رہے لیکن ان کا بھی شکوہ ہے کہ انہیں اتنی اجرت نہیں ملتی کہ وہ اپنے خاندان کی اچھی طرح سے کفالت کر سکیں۔
قندوز سے تعلق رکھنے والے خداداد نے، جو اب کابل میں رہتے ہیں، کہا کہ ان کے گھر کے تین افراد کام کی تلاش میں تھے لیکن کسی کو روزگار نہیں ملا۔
سیو دی چلڈرن کے سروے میں تقریباً 40 فیصد واپس آنے والوں کو کھانا ادھار لینا پڑتا ہے یا دوستوں اور رشتہ داروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
خداداد نے کہا کہ ان کے پاس پاکستان میں رشتہ داروں سے قرض لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
صوبہ لغمان کے محمد اسحاق مایوس ہیں کیونکہ وہ اب تک بے روزگار ہیں اور انہیں اپنے خاندان پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
افغانستان میں بے روزگاری اور معاشی بدحالی نے لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کو، ایران اور پاکستان جانے پر مجبور کیا ہے اور وہ ترکی یا یورپ جانے کے لیے کوئی بھی خطرناک راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔
تعلیم سے محرومی
سیو دی چلڈرن کے سروے کے مطابق جب یہ پاکستان میں مقیم تھے تو ان خاندانوں میں سے دو تہائی سے زیادہ بچے سکول جا رہے تھے۔ یہ تناسب اب اس کے برعکس ہے۔
تقریباً دو تہائی (65 فیصد) بچے اب سکول نہیں جا رہے ہیں۔ اکثریت (85 فیصد) نے سیو دی چلڈرن کو بتایا کہ ان کے پاس اپنے بچوں کو رجسٹر کرنے اور افغان سکولوں میں داخل کرنے کے لیے ضروری دستاویزات نہیں ہیں۔
بعض کا شکوہ ہے کہ ان کے پاس دستاویزات کی کمی نہیں بلکہ سکولوں کی کمی ہے۔
حشمت خان نے کہا کہ ’میرا ایک بیٹا پاکستان میں سکول جا رہا تھا۔ باقیوں میں سے کوئی بھی سکول کی عمر کو نہیں پہنچا تھا۔‘
ہاشم خان نے بتایا کہ ان کے آٹھ بچوں میں سے بیٹیوں سمیت چار بچے پاکستان میں سکول جا رہے تھے۔
اب ان کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کے جس گاؤں میں اب میں رہتا ہوں وہاں کوئی سکول نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر ضلع کے مرکز میں لڑکیوں کے لیے کوئی سکول یا ہائی سکول ہوتا تو بھی میری بڑی بیٹیاں وہاں نہیں جا سکتی تھیں کیونکہ چھٹی جماعت سے اوپر لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی ہے۔‘
گل محمد نے کہا کہ انہوں نے مزار شریف میں سکونت اختیار کرنے کا انتخاب کیا تھا تاکہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیج سکیں لیکن یہاں بھی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی ہے۔
امداد کی کمی
افغانستان واپس پہنچنے پر افراد کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جاتا۔ پی او آر کارڈز کے حامل افراد جنہوں نے رضاکارانہ طور پر واپسی کا انتخاب کیا ہے، انہیں یو این ایچ سی آر سے امداد کا ایک پیکج ملتا ہے۔ انہیں فی فرد 375 امریکی ڈالر امداد ملتی ہے۔
تاہم غیر دستاویز والے پناہ گزینوں اور اے سی سی کارڈ ہولڈرز کو عالمی ادارے سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ انہیں آئی او ایم سے محدود مدد، خوراک اور دیگر اشیا کے پیکج ملتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بارڈر کنسورشیم نے 23 ستمبر 2024 کو رپورٹ کیا کہ پانچ لاکھ 53 ہزار واپس آنے والے افغانوں میں سے تقریباً 85 فیصد کی مالی مدد کی گئی۔
پاکستان سے واپس آنے والے زیادہ تر افغانوں کے لیے غیریقینی اور ناپسندیدہ صورت حال موجود ہے۔
اس کے بعد یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہلمند سے حشمت خان جیسے کچھ واپس آنے والے غیر قانونی سرگرمیوں جیسے کہ گاڑیوں کی سمگلنگ میں شامل ہو کر روزی کمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم، زیادہ تر اب بھی کسی قسم کی مدد یا مالی امداد کی امید میں بیٹھے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، انتونیو گوتیرش نے حال ہی میں ’واپس آنے والوں کے پائیدار انضمام کو قابل بنانے کے لیے صلاحیتوں کو بڑھانے میں درپیش چیلنجز‘ کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا، ’یہ ضروری ہے کہ انسانی ہمدردی کی اپیل پر مناسب رقم فراہم کی جائے۔ تاہم، افغانستان آنے والی انسانی امداد کم ہو رہی ہے جب کہ ضرورتیں اتنی ہی ہیں۔‘
بشکریہ افغانستان اینالیسٹ نیٹ ورک