ٹرمپ کی زندگی پر ایک نظر: ’ایسا صدر پہلے کبھی نہیں آیا‘

ٹرمپ کہتے ہیں: ’جو کوئی بھی سمجھتا ہے میری کہانی ختم ہونے والی ہے، وہ بری طرح غلطی پر ہے۔‘

(اےایف پی)

ساری زندگی ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں جو چیز مستقل رہی وہ یہ ہے کہ ہر حال میں ہر چیز کو ٹرمپ کے گرد گھومنا چاہیے۔ 2016 میں رپبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی قبول کرتے ہوئے پراپرٹی ٹائیکون ٹرمپ نے امریکہ کے بنیادی ترین مسائل کے متعلق اپنی تقریر میں دعویٰ کرتے ہوئے کہا: 'صرف میں ہی انہیں درست کر سکتا ہوں۔ '

ہلیری کلنٹن پر ناقابل یقین فتح کے چار سال بعد اس منگل کو 74 سالہ امریکی صدر کے خود سر دعوے پر امریکی شہریوں کا ووٹ ایک طرح کا ریفرنڈم ہے۔ رائے شماری سے مسلسل واضح ہو رہا ہے کہ بڑی تعداد ٹرمپ کی مخالفت میں ووٹ ڈال رہی ہے لیکن ان کے چاہنے والوں کی محبت دیکھتے ہوئے کسی بھی غیر متوقع تاریخ ساز صورت حال کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی وبا کے دوران جو شخص ملک بھر میں عوام کی بڑی تعداد اکٹھی کر سکتا ہے، جن کے لبوں پر ’ہم آپ سے محبت کرتے ہیں‘ کے گیت ہوں تو کون شخص اس کے خلاف اعتماد کے ساتھ شرط لگائے گا؟ 

اگرچہ عہدہ سنبھالتے وقت ’امریکی قتل عام‘ کے خاتمے کا عہد کرنے والے ٹرمپ آج زیادہ گھمبیر بحران کے مالک ہیں، جن پر بہتری کی بجائے تباہی کے دہانے پر دھکیلنے کے الزامات لگاتے ہوئے کئی لوگوں نے کہا کہ 1970 کی دہائی سے لے کر آج تک کسی بھی مقام پر ایسا بدترین انتشار نہ تھا جو ٹرمپ نے پیدا کیا۔ 230,000 سے زیادہ لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے مر گئے جبکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں لوگ معاشی تنگ دستی کا شکار ہوگئے۔ واشنگٹن میں رپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان لڑائی جھگڑے، ایک دوسرے پر حملے اور موسم گرما میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے۔

بڑی بڑی باتیں کرنے کے باوجود ٹرمپ کی ساکھ کو اس کا نقصان پہنچا ہے۔

 صحت کے بحران کو مسلسل نظرانداز کرنے کے بعد انتخابات سے ایک مہینے پہلے انہیں کرونا وائرس کی وجہ سے ہسپتال داخل ہونا پڑا جس کے بارے میں بعد میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ تقریباً مر چکے تھے۔ اب جبکہ ان کی صحت بہتر ہوگئی لیکن ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ وہ محض تیسرے امریکی صدر ہیں جن کا مواخذہ ہوا اور ان کو عدالتی تحقیقات، ٹیکس کے مسائل سے لے کر ریپ اور جنسی ہراسانی تک کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ کڑے ناقدین اس سے بھی زیادہ سنگین غلطیوں کی نشان دہی کرتے ہیں جن میں وائٹ ہاؤس کو داغدار کرتی تاریخی غلطیاں، امریکیوں کو امریکیوں کے خلاف کرکے وجودی خطرے سے دوچار کرنا اور ان لاکھوں لوگوں سے دھوکہ دہی شامل ہے جو باہر بیٹھ کر واشنگٹن کی طرف راہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں۔ 

ٹرمپ اپنے حریف صدارتی امیدوار جو بائیڈن کو پچھاڑ سکتے ہیں جو انہیں ’قومی خطرہ‘ کہتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے ٹرمپ کے خلاف نہیں بلکہ ساتھ میں کام کیا ان کی تنقید غیر معمولی ہے، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

2018 میں مستعفی ہونے والے امریکی جنرل اور سابق ڈیفنس سیکریٹری جیمز میٹس نے لکھا ہے: ’میری زندگی میں ٹرمپ پہلا صدر ہے جس نے امریکی باشندوں کو متحد کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ محض دکھاوے کی حد تک بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ایک اور سابقہ میرین جنرل اور ٹرمپ کے سابق چیف آف دی سٹاف جون کیلے نے کہا: ’میرا خیال ہے ہمیں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم کسے منتخب کر رہے ہیں۔‘

قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے اور واشنگٹن میں دائیں بازو کے خارجی پالیسی سازوں میں سے ایک جون بولٹن نے انہیں ’عہدے کے لیے ناموزوں‘ شخص کہا ہے۔ 

زندگی بھر سیلزمین، رائلٹی ٹی وی پرفارمر اور خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے نے کبھی بھی زیادہ دیر خود کو منظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا تو اب کیسے ممکن تھا۔

ٹرمپ جس دن ہسپتال سے فارغ ہوئے تو انہوں نے ٹویٹ کی: ’کرونا سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسے اپنی زندگی پر حاوی مت ہونے دیں۔‘

انہوں نے خود کو پہلے کی نسبت بیس سال جوان لگنے کا دعوی کیا۔ انتخابی مہم کے دوران عوام سے داد وصول کرنے کے لیے انہوں نے کہا: ’میں سپرمین کی شرٹ پہن کر منظرِ عام پر آنا چاہتا تھا۔‘

یہ محض خود اعتمادی ہے یا مضحکہ خیز خود پسندی؟ اس مزاحیہ گھمنڈ کو کچھ بھی نام دیا جائے یہی چیز ٹرمپ کے حامیوں کو ان کا شیدائی بناتی اور مخالفین کو بھڑکاتی ہے۔

لیکن سال بھر میں اپنی صدارت کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے باوجود ٹرمپ نے اپنی ناگزیریت پر یقین رکھتے ہوئے دوسری باری کے لیے پرامید انداز میں پیش رفت جاری رکھی۔ وہ کہتے ہیں: ’آپ مجھے پسند کریں یا ناپسند لیکن آپ کو ووٹ مجھے ہی دینا پڑے گا۔‘

2016 میں کئی امریکی ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں رسائی کے خیال کا بھی مذاق اڑاتے تھے۔ بال جمائے رکھنے والی مخصوص ٹوپی، کانسی جیسا میک اپ، فاسٹ فوڈ کھانے اور بکثرت ٹی وی دیکھنے، تیزی سے بولنے، نان سٹاپ ٹویٹس کرنے کو نیو یارکر میگزین نے زیادہ سے زیادہ ایک سیاسی سرکس کا ڈراما سمجھا۔ اس کے باوجود آٹھ نومبر کو نو آموز سیاست دان نے ڈیموکریٹک کی بڑی نامور سیاستدان ہلیری کلنٹن کو اس وقت شکست سے دوچار کیا جب ان کی فتح یقینی نظر آ رہی تھی۔

اس فتح پر حامیوں کی خوشی اور ٹرمپ کے مخالفین کو پہنچنے والے صدمے کے بیان میں جتنی بھی مبالغہ آرائی کی جائے کم ہے اور امریکہ کے 45 ویں صدر کے پہلے دور اقتدار میں ہر اہم قدم نے ان متضاد جذبات کو مزید گہرا کیا ہے۔ ملکی آبادی کی تقریباً 40 فیصد کی تعداد میں اپنے حامیوں میں رپبلکن پارٹی کے قائدین سے لے کر بائیں بازو کے میڈیا اور فلم کے لوگوں تک ٹرمپ نے سٹیبلشمنٹ کے ہر طبقے میں مرکزی اہمیت اختیار کی۔ باقی سب کے لیے وہ ایک ڈراؤنا قومی خواب تھا جس کا آغاز الیکشن کی رات سے ہوا اور روزانہ دہرایا جا رہا تھا۔

انسانی روپ میں شیشے کی فلک بوس عمارتوں کی طرح منتخب صدر ٹرمپ بہت جلد ملک بھر میں چھا گئے۔ مخالفین نے جس شدت سے انہیں دبانا چاہا وہ اتنی ہی قوت سے ابھرے۔

2016 کے الیکشن میں روس کی مداخلت اور ٹرمپ کی مہم میں تعاون کی دو سالہ غیر معمولی چھان پھٹک مشکل پیدا کرتی نظر آئی لیکن آخر میں غیر متوقع طور پر بات نہ بن سکی۔ جب 2019 میں ڈیموکریٹکس نے الزامات کی بنیاد پر کاروائی شروع کی تو رپبلکن پارٹی جس نے ایک مرحلے پر سرے سے ٹرمپ کے الیکشن لڑنے کی ہی مخالفت کی تھی، وہ بھی ان کی مکمل پشت پناہی پر اتر آئی اور وہ باآسانی بچا لیے گئے۔

ایک پورن سٹار کے ساتھ عدالتی جنگ، حکومتی ملازمین کو اپنے نجی گالف کلب میں رہائش فراہم کر کے بھاری منافع کے الزام، اپنے وکیل کی اسیری، جو کسی دوسرے صدر کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتے تھے وہ سب ٹرمپ کا بال تک بیکا نہ کر سکے۔ 

ٹوئٹر کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اور دوبارہ انتخابی معرکوں میں مسلسل سرخ میگا بیس بال ٹوپی سے لے کر ٹرمپ نہ صرف اپنے مخالف افراد بلکہ تمام اداروں سے برسرپیکار رہے۔ وائٹ ہاؤس کے اہم ترین افراد کو مخالفت کی بنا پر گھر کا راستہ دیکھنا پڑا۔ صحافی ’عوام دشمن‘ قرار دیے گئے۔ خفیہ ایجینسیوں اور ایف بی آئی کو بدروح کہہ کر ’ڈیپ سٹیٹ‘ قرار دیا۔ پارلیمان میں مخالفین ’جھوٹے،‘ ’پاگل‘ اور 'غدار‘ کے لقب سے نوازے گئے۔ جیسے 2012 میں ٹرمپ نے جوش سے ٹویٹ کیا تھا: ’جب کوئی مجھ پر حملہ کرتا ہے میں بھی اس پر پلٹ کر حملہ کرتا ہوں۔‘ ناقدین انہیں آمریت پسند کے الزام سے منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’یہ ایک طرز زندگی ہے۔‘ جبکہ حامی خوش ہو کر کہتے ہیں وہ محض ’مخالفین سے چھیڑ چھاڑ‘ کر رہے تھے۔ دائیں بازو کے پکے حمایتی ریڈیو میزبان رش لمبا کے بقول وہ مسٹر مین ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔

یہی بے باک انسان ٹرمپ تھا جس نے فن سفارت کاری کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ کئی دہائیوں سے چلے آتے اتحاد کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے اتحادیوں سے تعلق کے چیتھڑے اڑا دیے۔

جنوبی کوریا، جرمنی اور کینیڈا جیسے دوستوں کو اپنے ساتھ دھوکہ بازی کا مرتکب ٹھہرایا۔ جب کہ اس کے برعکس شمالی کوریا اور چین جیسے مخالفین کو مذاکرات کے ذریعے معاملات نئے سرے سے حل کرنے کی دعوت دی گئی جہاں ٹرمپ نے مرکزی کردار ادا کیا۔ باہر یا ملک کے اندر جو چیز کبھی تبدیل نہ ہوئی وہ تھی کہ سب کچھ، ہر جگہ ان کے اپنے، ان کی سابقہ ماڈل اہلیہ ملانیا، ان کے پرعزم بچوں اور خود ساختہ نہایت ’مستحکم جینیئس‘ کے گرد گھومنا چاہیے۔

 واشنگٹن پوسٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اپنی انتظامیہ کے پہلے تین سالوں میں ٹرمپ نے بذات خود 16,000 غلط یا گمراہ کن بیانات داغے۔ ایک نام بڑبولے دعوے کا جواب پیش کرنا تو ناممکن دکھائی دیتا ہے: ’یہاں کبھی کوئی صدر صدر ٹرمپ جیسا نہیں آیا۔‘

غالباً ساری کہانی میں سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ ٹرمپ نے یہ سب کیا اور واشنگٹن میں بغیر کسی تربیت کے وہاں تک پہنچے جہاں آج وہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ 2016 سے پہلے ٹرمپ محض ٹی وی شو ’اپرینٹس‘ کی بے رحم شخصیت، پرتکلف عمارات اور گالف کلبوں کی تعمیر کے لیے مشہور تھے۔ سیاسی طور پر ان کا عمل دخل سازشی نظریے تک تھا جس کے مطابق باراک اوباما امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ بہت سارے لوگ اس نظریے کو شدید نسل پرستانہ کہتے ہیں۔ اس کے باوجود اس غیر سنجیدہ سیاستدان نے قوم کی دھڑکن اس وقت اپنی مٹھی میں لے لی جب دوسرے نہ لے سکے۔ صنعتی انحطاط اور تیزی سے پھیلتی لبرل سوشل اخلاقیات کے خلاف محنت کش طبقے میں بڑھتی بے چینی کو بھانپتے ہوئے ٹرمپ نے خود کو باہر سے آئے انقلابی کے روپ میں پیش کیا۔

ٹرمپ نے ٹوئٹر، فیس بک اور فوکس نیوز کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے بیچنے کے لیے ’بھولے ہوئے امریکی مرد و زن‘ کی بات کی اور وہ انتخابی معرکے تک جا پہنچے۔ ذاتی جیٹ طیارے، فیشن ماڈل دوست خواتین، کئی شادیاں اور باتھ روم میں سونے کی ٹونٹیوں کے ساتھ وہ پورے عیش و آرام سے جی رہے تھے۔

لیکن رسٹ بیلٹ کے علاقوں میں فیکٹریوں میں نوکریوں کی فراہمی اور معدنیات کی کان کنی کے وعدے لوگوں کو پسند آئے۔ عراق اور افغانستان میں ’بےفائدہ، ناختم ہونے جنگ‘ کے خاتمہ کے لیے دلیرانہ صدا کا اثر بہت گہرا ہوا۔ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے وعدے سے سفید فام امریکی ووٹروں کو حامی بنا لیا۔ ان دور دراز کے علاقوں میں غیر صدارتی ٹرمپ زیادہ بہتر دکھائی دیتے تھے۔ روایتی سیاست سے جیسے جیسے وہ دور نظر آئے لوگوں کو اسی قدر اپنے سے قریب نظر آئے جیسے وہ انہی میں سے ایک ہوں۔ ٹرمپ نے اکثر اپنے محنت کش حامیوں کو یاد دلایا کہ ’ہم اشرافیہ ہیں۔‘

 ٹرمپ کی نفسیات سمجھنے کے لیے ممکن ہے مستقبل کے مورخین صدارتی آرکائیوز میں کم اور ایم ایم اے، باکسنگ اور بالخصوص امریکہ کے نامور ریسلرز کی فاخرانہ، بے معنی اور پرتشدد ڈرامائی حرکتیں دیکھنے میں زیادہ وقت صرف کریں۔

ورزش سے کنی کتراتے فربہ مائل ٹرمپ مارشل آرٹس کے طویل عرصے سے پرستار چلے آتے ہیں۔ وہ کسی بھی دوسرے شخص کی جسمانی قوت اور مضبوطی کے بارے میں حیران کن حد تک دلچسپی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ وہ ہم عصر سیاستدانوں کے ’مضبوط پٹھوں یا کمزور پٹھوں‘ کی طرف اپنی تقریروں میں اشارہ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اوول آفس میں وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر کسی مرد کے ہاتھوں یا قد کی تعریف شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی اپنی جسمانی ساخت مستقل موضوع بحث ہے، جیسے 2019 کی ایک تقریر میں انہوں نے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا کہ کیسے ڈاکٹر ان کے ’شاندار سینے‘ کی تعریف کرتے ہیں۔

ٹرمپ کا مقابلہ امریکہ کے بوڑھے ڈیموکریٹکس امیدواروں سے رہتا ہے جبکہ وہ ترکی کے طیب اردوغان سے لے کر روس کے ولادی میر پوتن تک کسی کے مقابلے میں بھی کم تر نظر نہیں آتے۔

دنیا میں جابر ترین حکمران شمالی کوریا کے کم جونگ ان کے بارے میں تو ٹرمپ نے محبت بھرے انداز میں بولا ہے کہ مضبوط لوگوں میں ایک دوسرے کو تسلیم کرنا مشترک خاصیت ہے۔ برازیل کے سابقہ آمروں کا مداح جئیر بالسنیرو ان کی صدارت کو ٹروپکس کے ٹرمپ کہتے ہیں۔

ملک میں ان کے پرجوش مخالفین نے خبردار کیا کہ صدر ایسے لوگوں کی نقالی میں مزید آگے تک جانا چاہتے ہیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی کی مواخذہ ٹیم کے راہنما ایڈم سکف نے ٹرمپ کو ’خطرناک‘ شخص قرار دیا۔ ایک اور ڈیموکریٹک جیرلڈ نیڈلر نے انہیں ’آمر‘ کہا جو خود ’طاقت کا مرکز‘ بننا چاہتا ہے۔ ٹرمپ ٹرمپ ہے جیسی باتیں تنازعے کی صورت اختیار کر جاتی رہیں۔

جب چینی صدر شی جن پنگ نے تاعمر چین کا صدر رہنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی تو ٹرمپ کی طرف سے کوئی تنقیدی بیان سامنے نہ آیا۔ الٹا انہوں نے شی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا: ’ممکن ہے کبھی ہم بھی ایسا بڑا قدم اٹھائیں۔‘

گھٹن زدہ امریکی میڈیا اور عوام میں بظاہر ٹرمپ کا یہ لطیفے نما بیان کوئی نئی بات نہ تھی۔ ہمیشہ لطیفے کے انداز میں آخر کار ملک ان کی ایسی تجاویز کا مسلسل عادی ہوتا جا رہا تھا جس میں وہ عہدے پر کئی بار یا ہمیشہ رہنے کے لیے آئین کا انکار کرتے نظر آتے تھے۔ وہ میڈیا کی تسلی کے لیے کہتے: ’یہ انہیں پاگل کردینے کے لیے کافی ہے۔‘

یہ غیر معمولی سفر 14 جون 1946 میں نیو یارک شہر کے علاقے کوینز سے شروع ہوا۔ ریئل اسٹیٹ کے دولت مند کاروباری تارکین وطن فریڈ ٹرمپ اور میری اینی میکلیوڈ کے پانچ بچوں میں ڈونلڈ جون ٹرمپ کا چوتھا نمبر تھا، جو اعصاب کی مضبوطی کے لیے ہائی سکول کے دنوں میں ایک نجی ملٹری اکیڈمی میں بھیجے گئے، اس کے باوجود ٹرمپ نے آرام دہ جوانی بسر کرتے ہوئے پینیسلوینیا یونیورسٹی کے وارٹن سکول سے بزنس میں ڈگری حاصل کی۔

 اپنے وقت کے کھاتے پیتے گھرانے کے افراد کی طرح ویت نام کی جنگ سے اپنا نام نکلوانے کے لیے ٹرمپ کے پاس بے شمار حربے تھے۔

 اپنے خاندانی کاروبار میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ٹرمپ کے اپنے بقول انہوں نے اپنے والد سے دس لاکھ ڈالر کا ’چھوٹا سا قرض‘ لیا۔ کچھ لوگ اس رقم کو دس گنا زیادہ بتاتے ہیں۔ 1971 میں معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ٹرمپ نے جائیداد کی خرید و فروخت چھوڑ کر شراب کا کاروبار اپناتے ہوئے اپنے گرد ملک کے سب سے مشہور ارب پتی پلے بوائے کے تاثر کو اجاگر کرنا شروع کیا۔

نیو جرسی سے بمبئی تک فلک بوس عمارتوں، کسینوز، گالف کلبوں کا جال بچھانے کے بعد وہ طویل مدت کے لیے مس یونیورس اور مس یو ایس اے مقابلہ حسن کے شریک مالک بن گئے۔ انتہائی شاندار کامیابیوں کی چمک کے پیچھے بینک کے قرضوں، قانونی جنگوں اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے قرضہ جات کے تاریک سائے موجود ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے کم روشن پہلو کو چھپانے کے لیے صدارتی روایت توڑتے ہوئے ٹیکس گوشوارے دکھانے سے انکار کیا۔ نیویارک ٹائمز کہتا ہے کہ وہ یہ گوشوارے دیکھنے میں کامیاب رہا، جن سے ظاہر ہوتا ہے ٹرمپ معمول کے مطابق فیڈرل ٹیکس ادا کرنے سے بالکل صاف بچ کر نکلے ہیں اور انہوں نے صرف ساڑھے سات سو ڈالر ٹیکس دیا ہے۔

یہ رپورٹ ان کے کئی سکینڈلز سامنے لائی لیکن بہت جلد یہ بھی بھلا دیا گیا اور اس کے بعد نیا ڈراما اور پھر اگلا ڈراما اور یہ رپورٹ دب کر رہ گئی۔ اب امریکی عوام کا فیصلہ ہے کہ وہ یہ ریئلٹی شو بند کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ٹرمپ کا خیال ہے وہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ جیسے انہوں نے ایک بار کہا تھا: ’جو کوئی بھی سمجھتا ہے میری کہانی ختم ہونے والی ہے، وہ بری طرح غلطی پر ہے۔‘  

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ