انسانی مردہ جسم اب قانونی طور پر کھاد بنانے کے کام آئے گا

امریکی ریاست واشنگٹن میں ایک مسودہ قانون کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے تحت وہ مردہ انسانی جسم کو کھاد کے طور پر استعمال کرنے والی پہلی ریاست بن جائے گی۔

مردہ انسانی جسم کو کھاد میں تبدیل کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت انسانی باقیات تیزی کے ساتھ مٹی میں شامل ہوجاتی ہیں۔ تصویر: اے ایف پی

امریکی ریاست واشنگٹن میں ایک مسودہ قانون کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے تحت وہ مردہ انسانی جسم کو کھاد کے طور پر استعمال کرنے والی پہلی ریاست بن جائے گی۔

مردہ انسانی جسم کو کھاد میں تبدیل کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت انسانی باقیات تیزی کے ساتھ مٹی میں شامل ہوجاتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عمل انسانی جسم کودفن کرنے اورجلانے کے مقابلے میں ماحول کے لیے کم نقصان دہ ہے۔

ریاستی قانونی ساز اسمبلی نے ایس بی 5001 کے نام والا مسودہ قانون منظورکرلیا ہے جس کے تحت انسانی باقیات کو کیمائی مادوں کے ذریعے کھاد میں تبدیل کرنے کے عمل کو قانونی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔

یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب مردہ انسانی جسموں کو ٹھکانے لگانے کے متبادل طریقوں میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ مسودہ قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انھیں یہ بات پسند ہے کہ مرنے کے بعد ان کے جسم کو ضروری کیمیائی عمل کے بعد کھاد میں تبدیل کردیا جائے تاکہ پودوں اوردرختوں کو خوراک مل سکے۔

واشنگٹن کے ڈیموکریٹ گورنرجے انسلی کے دستخط کے بعد یہ بل قانون بن جائے گا۔ جے انسلی 2020 کے صدارتی الیکشن میں پارٹی کی جانب سے اپنی نامزدگی کے خواہشمند ہیں۔

امریکہ کی 15 ریاستوں میں مرنے کے بعد انسانی جسم کو تیزانی پانی میں ڈال کر ٹھکانے لگانے کے عمل کو پہلے ہی قانونی حیثیت حاصل ہے۔

انسانی کھاد کے بل کو پہلی بار متعارف کرانے والے سینیٹر جیمی پیڈرسن نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ مردے کو ٹھکانے لگانے کے جس طریقے کو وہ فروغ دے رہے ہیں، روایتی تدفین کے مقابلے میں دو ہزار ڈالر سستا اور ماحول کے لیے کم نقصان دہ ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’یہ حیران کن ہے کہ 2019 میں بھی مرنے کے بعد انسانی جسم کوٹھکانے لگانے کے صرف دو طریقے ہیں جو صدیوں سے استعمال ہوتے آ رہے ہیں۔ دوسرے تمام شعبوں میں ٹیکنالوجی سب کچھ بدل رہی ہے۔‘

سیاٹل میں مقیم اورفن تعمیر میں ماسٹرز کرنے والی ڈیزائنر اور تاجر کیترینہ سپیڈ انسانی کھاد کی مہم کی جزوی طور حمایت کر رہی ہیں۔ انھوں نے 2014 میں اربن ڈیتھ پراجیکٹ کے نام سے ایک نام نہاد منصوبہ شروع کیا تھا، جس کے تحت انہیں انسانی باقیات کو کھاد میں تبدیل کرنے کے جائزے کا موقع ملا۔

کترینہ سپیڈ نے کیلی فورنیا اور واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹیز کے محققین سے رابطہ کرکے انسانی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے بہترین طریقے کے بارے میں دریافت کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے جن سے رابطہ کیا ان میں سول سائنسزکے پروفیسر لین کارپینٹربوگس خاص طور پر شامل تھے۔

اولمپیا میں ایوان زیریں کے بعد ’انسانی کھاد بل‘ کی ایوان بالا کی منظوری پر کیترینہ سپیڈ نے حامیوں کو کی گئی ایک میل میں لکھا کہ ’ہم کامیاب ہوگئے۔‘

مس کترینہ کھاد سے متعلق کمپنی ری کمپوز کی سربراہ بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک تیزاب کے ذریعے انسانی جسم کو کھاد میں تبدیل کرنے کا عمل آسان اور ماحول دوست ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس