بلوچستان کی پہلی خاتون پولیس افسر پری گل ترین سے ملیے

ضلع پشین کے ایک پشتون گھرانے سے تعلق رکھنے والی پری گل کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے دیگر خواتین کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے کھڑے ہونے پر تیار کرنا۔

پری گل ترین گذشتہ ما ہ گذشتہ ماہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بطور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) تعینات ہوئیں۔ (تصویر: پری گل ترین)

تعلیم کے حصول اور پولیس میں شمولیت کے لیے طویل جدوجہد کرکے پاکستان کے پسماندہ صوبہ بلوچستان سے سی سی ایس کے ذریعے پہلی خاتون پولیس افسر بننے والی پری گل ترین کی زندگی کا اب ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے دیگر خواتین کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے کھڑے ہونے پر تیار کرنا۔

بلوچستان ملک کا غریب ترین اور ترقی کے محاذ پر بدترین صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی بہت پیچھے ہے، جہاں خواتین کی شرح خواندگی صرف 24 فیصد ہے۔ والدین بچیوں کو تعلیم دلانے پر عموماً آمادہ نہیں ہوتے جبکہ یہاں لڑکیوں کے اسکول بھی بہت کم ہیں۔

مگر پری گل ترین نے ان تمام نامساعد حالات کا بڑی جرات اور کامیابی سے مقابلہ کیا اور گذشتہ ماہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بطور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) تعینات ہوئیں۔

نئی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد پہلا کام جو انہوں نے کیا، وہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی رپورٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک خصوصی ڈیسک کا قیام تھا۔

عرب نیوز سے گفتگو  میں پری گل کا کہنا تھا: 'جب تک خواتین باہر نکل کر اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑیں گی تب تک کوئی انہیں ان کے حقوق نہیں دے گا۔'

انہوں نے مزید کہا: 'ہم خواتین کی آگاہی کے پروگرام پر کام کر رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں وہ آگے آئیں اور پولیس کے ساتھ مل کر جرائم کی روک تھام کے لیے کام کریں۔'

پری گل کا کہنا تھا: 'خواتین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی فعال اور کارآمد رکن کی حیثیت سے تعمیری کردار ادا کریں۔'

انہوں نے خواتین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'معاشرہ اتنا دوستانہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو اسپیس فراہم کرے، لہٰذا اپنے لیے مقام آپ کو خود تخلیق کرنا ہے۔'

بلاشبہ پری گل سے بہتر شاید ہی کوئی جدوجہد کرنا جانتا ہو کیونکہ وہ اپنے خاندان کی پہلی فرد ہیں جس نے میٹرک کیا اور پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ حتیٰ کہ میٹرک کے بعد سماجی دباؤ کے سبب ان کو چار سال تک اپنی تعلیم بطور پرائیویٹ طالب علم جاری رکھنا پڑی، لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔

تاہم پری گل اس معاملے میں ایک لحاظ سے خوش قسمت بھی تھیں کہ ابتدا میں انہیں اپنے گھر والوں اور بعد میں اپنے شوہر کا مکمل تعاون حاصل رہا۔

انہوں نے بتایا: 'میرے والدین بہت نرم دل تھے، میری تعلیم پر وہ اس لیے راضی ہوئے کہ میں دیگر لڑکیوں کی طرح شاپنگ، کپڑوں اور باہر گھومنے کی خواہش نہیں کرتی تھی، بس تعلیم کے حصول کے اپنے ایک ہی مطالبے پر قائم رہی۔'

پری کے مطابق: 'جب بچوں کے ہاتھوں میں کھلونے ہوتے تھے اور وہ اپنے نئے کپڑوں کی نمائش کرتے نظر آتے تھے، تب میرے پاس ان کو دکھانے کے لیے نئی کتابیں ہوتی تھیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضلع پشین کے ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہونے والی پری گل نے 2008 میں میٹرک کیا اور پھر چار سال پرائیویٹ پڑھنے کے بعد 2014 میں انہوں نے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے ماسٹر کیا۔

ان کامیابیوں نے پری گل کو ترغیب دی کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پھر سرکاری افسر بننے کے لیے سماجی دباؤ کے باوجود سی ایس ایس امتحان کی تیاری کریں۔

پری گل نے بتایا: 'میرے گھر والے میرے سی ایس ایس پاس کرنے پر بے حد خوش تھے کیوں کہ (میرے تعلیم حاصل کرنے پر) معاشرے نے انہیں دیوار سے لگایا ہوا تھا۔'

انہوں نے بہت جلد پولیس سروس میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے بلوچستان کی تاریخ میں سی ایس ایس کے ذریعے پولیس سروس آف پاکستان جوائن کرنے والی پہلی خاتون افسر بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔

پری گل نے بتایا: 'میرا ہمیشہ سے یہ خواب رہا تھا کہ یونیفارم پہن کر اپنے لوگوں کی خدمت کروں،' ساتھ ہی انہوں نے تاسف بھرے لہجے میں کہا: 'ایک طرف صوبے کی پہلی خاتون پولیس افسر بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہے تو دوسری طرف یہ بات باعثِ تشویش ہے کہ ایک خاتون یہ اعزاز 2020 میں ہی حاصل کرسکی اور کئی دہائیوں تک خواتین کو تعلیم اور معاشرے میں مثبت کردار کی ادائیگی سے محروم رکھا گیا۔'

انہوں نے کہا: 'مردوں کے غالب معاشرے میں یہ ایک چیلنجنگ اور مشکل کام ہے، لیکن میں خدمت کی فراہمی پر یقین رکھتی ہوں۔ پولیس نام ہی لوگوں کی خدمت کے لیے کمٹمنٹ کا ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر