پشاور سے تعلق رکھنے والے 'ترک لالہ' کون تھے؟

 گذشتہ ہفتے ڈرامہ ارطغرل غازی کی ٹیم میں شریک ڈرامے کے کرداروں عبدالرحمان الپ اورجلال اللہ شریک نے وزیر اعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور انہیں عبد الرحمان پشاوری پر ڈرامہ بنانے کی تجویز  بھی دی۔

(غازی عبدالرحمان پشاوری۔ تصویر :سوانح)

 جب 1857 کی 'جنگ آزادی ' کے دوران ہندوستان میں حالات بگڑنے لگے تو ان کے برے اثرات کشمیر تک پہنچنے لگے اور نوبت قحط تک جا پہنچی۔

تاریخ کے اوراق میں یہ بھی لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے گھر کا چولہا چلانے کے لیے بچوں کو بھی بیچنا شروع کردیا۔ جب حالات اس نہج تک پہنچ گئے تو کشمیر کے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے شخص شیخ رحمت اللہ نے اپنی ایک  بیٹی اور بیٹے  غلام  صمدانی کو کشمیر سے پشاور کے لیے روانہ کر دیا تاکہ وہاں بہتر زندگی گزار سکیں ۔

کٹھن راستہ طے کر کے وہ آخر کار پشاور میں اپنے ماموں کے گھر پہنچ گئے  جو چاولوں کا کاروبار کرتے تھے۔

غلام صمدانی کو پشاور آکر ایک چیلنج یہ درپیش تھا کہ وہ کچھ کما کر گھر کا خرچہ چلائیں اس لیے انہوں نے  چھوٹی موٹی دکانوں پر کام کرنا شروع کر دیا۔

کچھ عرصے بعد انہیں انگریزوں سے چائے کی دکان کا ایک ٹھیکہ مل گیا۔اس وقت پشاور انگریزوں کے ماتحت تھا۔ کچھ عرصے بعد غلام صمدانی کروڑوں روپے کے مالک بن گئے۔

پشاور کی مشہور مسجد قاسم علی خان کی توسیع کے لیے زمین بھی غلام صمدانی نے خریدی تھی جب کہ قصہ خوانی بازار میں قصہ خوانی مسجد کے نام مسے مشہور مسجد کی تعمیر بھی غلام صمدانی نے کروائی۔ غلام صمدانی کی تیسری بیوی سے عبدالرحمان نامی بیٹا پیدا ہوا، یہی بچہ بڑا ہو کرعبد الرحمان پشاوری، ترک لالہ او ر حافظ نپولین کے نام سے مشہور ہوا۔

عبد الرحمان پشاوری 1886 میں پشاور میں پیدا ہوئے ۔ ان کی سوانح عمری میں ان کے بھائی نے لکھا ہے کہ  بچپن میں انہوں نے قران کے 14پارے جب حفظ کرنے شروع کیے تو ان کے گلے میں کوئی مسئلہ پیدا ہوگیا جس سے ان کی آواز بیٹھ گئی اور ان کو حفظ چھوڑنا پڑا۔

اس کے بعد ان کے والد نے ان کو 1905 میں میونسپل بورڈ پشاور میں داخل کروادیا۔

وہ بچپن ہی سے کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے۔ان کو فارسی، پشتو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا۔ ان کی سوانح عمری میں لکھا ہے ان کے دوستوں میں ایک  سردار عبدالرؤف تھے جنہوں نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی تھی ۔وہ نواب سر اسلم خان کے پوتے تھے۔نواب سر اسلم وہ شخصیت ہیں جو 1892میں افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان خان اور انگریزوں کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں انگریزوں کی طروف سے شامل تھی۔

عبدالرحمان کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے کے شوقین تھے جب کہ گھڑ سواری سے بھی بے پناہ محبت کرتے تھے۔

علی گڑھ میں تعلیم اور ’حافظ نپولین‘

علی گڑھ یونیورسٹی کا ایک نمائندہ وفد 1905 میں پشاور آیا جہاں وہ عبدالرحمان کے والد غلام احمد صمدانی سے ملا اور انہیں بتایا کہ عبدالرحمان پشاوری کو علی گڑھ میں داخل کروائیں۔

عبدالرحمان کے والد نے یہ مشورہ قبول کر لیا۔ عبدالرحمان پشاوری کو علی گڑھ بھیج کر وہاں ان کا آٹھویں جماعت میں داخلہ کرایا۔ان کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ علی گڑھ میں تعلیم کے دوران عبدالرحمان پشاوری کو نپولین سے بے پناہ محبت ہوگئی اور وہ ان کی زندگی پر کتابیں پڑھنے لگے۔ وہ علی گڑھ میں نپولین کے حوالے سے  اتنے مشہور ہوگئے کہ لوگ ان کو 'حافظ نپولین' پکارنے لگے۔

وہ علی گڑھ میں زمانہ طالب علمی کے دوران انگریزوں کے خلاف تحریکوں میں پیش پیش رہے ۔ انگریزوں کے خلاف مضمون لکھنے کی بنا پر انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ تاہم عبدالرحمان کی زندگی پر لکھی گئی کتاب 'عبدالرحمان شہید' میں لکھا ہے کہ1908 میں ان کو مولانا حسرت موہانی سمیت نکالا گیا تاہم انہیں1911 میں علی گڑھ کالج میں دوبارہ داخلہ مل گیا ۔

اس وقت سیاسی حالات بالکل بدل چکے تھے ۔ کتاب کے مطابق کالج کے زیادہ تر طلبہ کی زبانوں پر اور ذہنوں میں انگریزوں کے خلاف انقلاب برپا تھا۔

سوانح عمری کے مطابق 1908 سے 1912 تک کا زمانہ ایشیائی مسلمانوں کی تاریخ میں نہایت پر آشوب زمانہ تھا ۔ اس دور میں انگریزوں کی ایما پر آسٹریا نے ترکی کے دو صوبوں پر قبضہ کرلیا۔1911 میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کر دیا اور 1912 میں بلقانی ریاستوں سے ترکی پر حملہ کروایا گیا ۔

ہندوستان سے ترکی جانے والے طبی وفد میں عبد الرحمان پشاوری کی شمولیت

1912 میں اٹلی نے جب  ترکی پر حملہ کیا تو اس کی خبریں ہندوستان تک پہنچنا شروع ہوگئیں۔ جب جنگ کی خبر پہنچی تو مسلمانوں کی جانب سے مختلف شکلوں میں امداد کی اپیلیں شروع ہوگئیں۔

ایک تجویز یہ سامنے آئی کہ طبی وفد کو ترکی بھیجا جائے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ایجوکیشن سے وابستہ  ڈاکٹر سہیل خان ہے اور جو تاریخ پر کئی مقالے لکھ چکے ہیں انہوں نے عبدالرحمان پشاوری کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ  دسمبر 1911میں جب وفد تیارکیاگیا تو عبدالرحمان پشاوری نے ترکی جانے کی حامی بھر لی۔

وفد کی سربراہی ڈاکٹر مختار انصاری کر رہے تھے جنہوں نے دل کی بیماری میں عبدالرحمان پشاوری کا علاج کیا تھا۔ ڈاکٹر  انصاری  کی سربراہی میں اس وفد کے 22 ارکان تھے جس میں پانچ ڈاکٹر اور باقی ان کے معاون تھے ۔

 عبدالرحمان پشاوری اس وفد میں بطور معاون شریک ہو ئے۔ ڈاکٹر سہیل کے مطابق عبدالرحمان نے اپنا سارا سامان بیچ دیا اور والد کو مطلع کیے بغیر ترکی مشن پر روانہ ہوگئے۔

انہوں نے روانگی سے قبل ہمشیرہ کو ایک تفصیلی خط میں اپنی مالی تنگدستی اور والد کی طروف سے سفر پر جانے کی اجازت نہ ملنے کا ذکر بھی کیا۔

ڈاکٹر سہیل لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر انصاری کا یہ طبی وفد دسمبر 1912میں ترکی پہنچ گیا ۔ وفد ایک مہینے تک استنبول میں قیام کے بعد آٹھ فروری 1913 کو میدان جنگ کی طروف روانہ ہوا۔

وفد کو میدان جنگ کے تین محاذوں کے لیے تشکیل دیا گیا۔ عبدالرحمان پشاوری وفد کے واحد رکن تھے جوتینوں محاذوں پر جاتے اور اپنی خدمات پیش کرتے۔ وہ جان کی پروا کیے بغیر میدان جنگ میں نکل جاتے اور توپ کے گولوں کی ہلاکت خیزی اور گولیوں کی بارش میں زخمیوں کو تلاش کرتے۔ وہ زخمیوں کو پیٹھ پر لاد کر میدان جنگ سے نکالتے اور ہسپتال پہنچاتے۔

عبدالرحمان پشاوری جس وفد کا حصہ تھے وہ 1913 میں ترکی سے ہندوستان واپس آ گیا لیکن  عبدالرحمان وہیں رہ گئے اور کبھی واپس نہیں آئے۔

ڈاکٹر سہیل کہتے ہیں کہ اس وقت کے ترک خلیفہ سلطان محمد خامس نے  وفد کو ہندوستان واپس رخصت کردیا اور عبدالرحمان کو اپنے ساتھ روک لیا۔

اس کے بعد عبدالرحمان پشاوری نے ترک فوج میں شمولیت اختیار کی اور قسطنطنیہ اور بیروت میں فوجی تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے لیکن جب پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی تو انہیں ترک فوج میں لیفٹیننٹ کا عہدہ دے کر بیروت سے بلوا لیا گیا اور خطرناک محاذ درہ دانیال بھیج دیا گیا۔

عبدالرحمان پشاوری کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے ترک فوج  میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے وہاں بری فوجی کالج میں داخلہ لے لیا۔

ترکی نے جب 29 اکتوبر 1914 کو روس ، برطانیہ اور فرانس کے خلاف کا جنگ کا اعلان کیا تو  وہ جرمنی کا اتحادی تھا۔سوانح عمری کے مطابق عبدالرحمان ایک غیر ملکی تھے لیکن ترکی سے محبت کی وجہ سے ان کو اس وقت ترک فوج میں عہدہ دے دیا گیا جب کہ ابھی ان کی فوجی تربیت بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔

درہ دانیال عالمی جنگ میں ترکی کے لیے نہایت اہم محاذ تھا جہاں سے فرانسیسی اور برطانوی بیڑے قسطنطنیہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

عبدالرحمان کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ وہ اسی درہ دانیال پر خدمات  انجام دیتے رہے۔ درہ دانیال کے بعد عبد الرحمان گیلی پولی کے محاذ پر بھی موجود رہے جہاں 1916 میں فرانسیسی اور برطانوی افواج اتر ی تھیں۔

سوانح عمری کے مطابق عبدالرحمان پشاوری کو 1915 میں ترکی کے مشہور بحری افسرروف بے جو آزادی کے بعد ترکی کے پہلے وزیراعظم بھی رہے ، کی سربراہی میں وفد کے ساتھ افغانستان بھیجا گیا تھا تاہم وہ وفد افغانستان نہیں پہنچ سکا۔

عالمی جنگ میں جرمن فوجوں کو شکست کا سامنا کرنا  پڑا اور یوں ترکی کو بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ 29 ستمبر کو بلغاریہ نے ہتھیار ڈال دیے جس کے بعد اتحادی فوجوں کو قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار ہوگئی اور یوں مجبورا 30 اکتوبر 1918 کو ترکی نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔

ترکی کو شکست کے بعد عبدالرحمان کہاں چلے گئے؟

جب ترکی شکست سے دوچار ہوگیا تو بہت سی سیاسی شخصیات نے ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں جانے کا فیصلہ کیا لیکن عبدالرحمان پشاوری وہاں پر موجود رہے اور بعد میں انقرہ جا کر مصطفی کمال پاشاکی فوج میں شامل ہوگئے ۔

اس حوالے سے کتاب میں لکھا ہے کہ عالمی جنگ کے بعد انگریزوں نے جب استنبول پر قبضہ کرلیا تو وہ  عبدالرحمان شہر میں روپوش ہوگئے تاکہ انگریزوں کے ہاتھ نہ لگیں۔

جب روف بے کو خفیہ خبر ملی کہ انگریز ترک پارلیمنٹ کو توڑنے اور ان کے ارکان کو گروفتار کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو انہوں نے عبدالرحمان کو خفیہ طور انقرہ بھیج دیا تاکہ وہاں جا کر وہ ترکی فوج جو مصطفی کمال پاشا کے زیر کمان منظم ہورہی تھی ،میں شامل ہو جائیں۔

ترک فوج کو منظم کرنے کے بعد مصطفی کمال پاشا نے 1920 میں  انقرہ میں عارضی حکومت بنائی اور  اس کے صدر منتخب ہو گئے۔ اسی سال فرانس اور اتحادیوں نے ترک حکومت سے فرانس کے شہر سیوری میں ایک معاہدہ کیا جو 'معاہدہ سیوری' کے نام سے مشہورہوا لیکن مصطفی کمال پاشا نے اس معاہدے کی سخت شرائط کے خلاف عوامی تحریک کاآغاز کردیا۔

عبدالرحمان پشاوری کی سوانح عمری میں لکھا  ہے کہ افغانستان نے مصطفی کمال پاشا کی حکومت سب سے پہلے تسلیم کی  اور وہاں پر اپنا سفیر بھی بھیج دیا ۔ جواب میں انقرہ کی حکومت نے بھی اپنا سفیر افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا اور یوں مارچ 1921 میں عبدالرحمان پشاوری کو افغانستان میں سفیر مقرر کر دیا گیا۔

سفیر مقرر ہونے کے بعد عبدالرحمان پشاوری  چار ماہ سے زیادہ عرصے میں افغانستان پہنچے کیونکہ انہوں نے سفر کا زیادہ حصہ پیدل طے کیا۔ ان کے ساتھ جانے والے دو خدمت گزار سخت حالات کی وجہ سے راستے ہی میں غائب ہوگئے تھے۔

کابل میں اس وقت کے والی امان اللہ خان نے عبدالرحمان پشاوری کا پر تپاک استقبال کیا ۔ اس کی ایک وجہ عبدالرحمان پشاوری کی ایک اہلیہ کا افغانستان کے شاہی خاندان سے تعلق کا تھا۔

عبدالرحمان پشاوری 1923 تک افغانستان میں ترکی کے سفیر رہے اوربعد میں ترکی واپس چلے گئے۔ 1924میں مصفطی کمال پاشا اور روف بے کے درمیان اس بات پر  اختلافات پیدا ہوگئے کہ ایک طروف خلافت اور دوسری جانب جمہوریت تھی  اور یوں روف بے کو وزارت عظمیٰ چھوڑنی پڑی۔

عبدالرحمان پشاوری کا قتل

بیس اور اکیس مئی 1925 کی درمیانی شب قسطنطنیہ میں تین افراد نے حملہ کر کے عبدالرحمان پشاوری کو زخمی کر دیا۔ ایک گولی ان کے دائیں پھیپھڑے سے گزر کر ریڑھ کی ہڈی کو زخمی کرتی ہوئی نکل گئی ۔ زخمی ہونے کے بعد وہ زیرعلاج رہے۔عبدالرحمان پشاوری کی سوانح عمری کے مطابق یہ خبر ممبئی  سے نکلنے والے اخبار 'بمبئی کرانیکل' میں چھپی تھی۔ خبر کے مطابق پشاوری اس رات استنبول کے محلہ اخلامور سے گزر کر روف بے کے گھر جا رہے تھے ۔راستے میں ان پر حملہ کیا گیا۔ وہ ہسپتال میں ایک ماہ تک زیرعلاج رہنے کے بعد دم توڑ گئے۔

سوانح عمری میں ان پر حملے کے حوالے سے مختلف ذرائع سے مختلف کہانیاں درج  ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ چونکہ پشاوری اس وقت کی جمہوریت پسند خلق پارٹی جس کی سربراہی مصطفی کمال پاشا کر رہے تھے  کے مخالف تھے ،اسی  لیے پارٹی نے انہیں کو قتل کروایا ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری  تھیوری یہ  ہے کہ حملہ آوروں نے پشاوری کو روف بے سمجھ کر قتل کیا کیونکہ ان کی شکل ان سے ملتی تھی۔

وفات کے بعد عبدالرحمان پشاوری کو ماچقہ کے قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا ۔

پشاوری کو آج بھی ترکی میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ ترکی میں وہ ترک لالہ یا لالہ ترک سے مشہور ہیں ۔

ترکی کے مشہور ڈرامہ ارطغرل غازی  میں ایک اہم کردار 'عبدالرحمان الپ'کا بھی ہے جس کے ذریعے پشاوری کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

ڈرامے میں عبدالرحمان الپ  ڈرامے کے مرکزی کردار ارطغرل غازی کے خاص سپاہیوں میں شامل تھے جو ان کے ساتھ ہر وقت ہوتے تھے۔ترکی کے صدر طیب اردوغان جب 2016 میں پاکستان آئے تھے تو انہوں نے  پارلیمنٹ سے خطاب میں عبدالرحمان پشاوری کا ذکر بھی کیا تھا کہ ان کی خدمات ترکی والے کبھی نہیں بھولیں گے۔

 گذشتہ ہفتے ڈرامہ ارطغرل غازی کی ٹیم جس میں ڈرامے کے کردار عبدالرحمان الپ اورجلال اللہ شریک تھے نے وزیر اعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات میں عبد الرحمان پشاوری پر ڈرامہ بنانے کی تجویز  بھی دی تھی تاکہ ترکی کے لیے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ