رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن: سات سالوں میں اکیس محکموں کو جرمانہ ہوا

کمشنر آر ٹی آئی کے مطابق ان کے پاس زیادہ تر میرٹ لسٹ کی شکایات آتی ہیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کس شخص کو کس بنیاد پر منتخب کیا گیا۔

ہر اپیل کو نمٹانے کے لیے آٹھ ہفتے کی حد مقرر ہے: کمشنر ریاض داودزی (رائٹ  ٹو انفارمیشن کمیشن فیس بک پیج)

صوبہ خیبر پختونخوا میں عوام کی مختلف سرکاری اداروں کی معلومات تک رسائی ممکن بنانے والے ادارے ‘انفارمیشن کمیشن’ کے مطابق 2014 سے لے کر 2020 تک 21 دفاتر اور محکموں کو جرمانہ کیا گیا جب کہ 70 اداروں کو شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے۔

جمہوری اداروں کو عوام کے سامنے جوابدہ بنانے اور شفافیت برقرار رکھنے کے لیے اگست 2013 میں صوبائی اسمبلی نے ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا بنیادی حق دیتے ہوئے رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس جاری کیا، جس کو  تین مہینے بعد قانونی شکل دے دی گئی۔

اس ایکٹ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19کے تحت ہر شہری کو بلاتفریق کسی سرکاری ادارے کی کارکردگی یا اس کے تحت جاری کسی بھی اقدام کے بارے میں معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہو۔

اسی طرح ہر ادارے پر لازم ہے کہ وہ اپنی ادارجاتی معلومات کو عوام سے خفیہ نہیں رکھے اور ان سے جب بھی کسی قسم کی معلومات مانگی جائے وہ اسے دینے کے پابند ہوں۔

خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن کے کمشنر ریاض داودزی نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کمیشن کے حوالے سے گفتگو میں کہا کہ آر ٹی آئی دنیا کے چند بہترین قوانین میں سے ہے کیونکہ یہ کسی بھی قوم کی عوام کا اپنی حکومت اور ریاست پراعتماد بڑھاتا ہے، ان کے مسائل حل ہوتے ہیں اور نتیجتاً جمہوریت کو تقویت ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی اداروں سے متعلق تمام معلومات تک آسان رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔‘ایک ادارہ اس حد تک معلومات پبلک کرنے کا پابند ہے کہ اگر اس کے پاس وسائل نہ ہوں تو چاہے اسے دیوار پر ہی کیوں نہ لکھنا پڑے وہ اپنی کارکردگی اور اقدامات سے متعلق تمام تر معلومات سےعوام کو آگاہ کرے گا۔’

ریاض نے مزید کہا کہ ہر وہ ادارہ جس کو سرکاری خزانے سے ایک روپیہ بھی جاتا ہے وہ پابند ہے کہ اپنی تنخواہ اور دفتری اخراجات سے لے کر ہرقسم کی معلومات کو عوام کے سامنے رکھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ موجودہ حکومت کی ایک ایسی کاوش ہے جس کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ فائدہ اٹھا چکے ہیں۔

کتنی شکایات موصول ہوئیں؟

آر ٹی آئی کمشنر نے پچھلے سات سال میں موصول ہونے والی شکایات کی تفصیلات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ درخواست گزار کسی بھی متعلقہ ادارے سے معلومات لینے میں ناکامی کے بعد شکایت کے لیے آر ٹی آئی کمیشن سے رجوع کرتا ہے لہٰذا ان کے پاس درخواستیں نہیں بلکہ صرف شکایات موصول ہوتی ہیں۔

اس ضمن میں رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کو پچھلے سات سالوں میں 862 شکایات موصول ہوئیں جب کہ کُل 19 ہزار37 شہریوں نے درخواستیں جمع کرائیں، جن میں سے ‘پبلک باڈیز’ یعنیٰ حکومتی اداروں نے 10 ہزار 642 یعنی 56 فی صد شہریوں کو معلومات فراہم کیں۔

کمشنر نے بتایا کہ ان میں سے 7706 (40 فی صد) درخواستیں شکایات میں تبدیل ہوئیں جبکہ 689 (نو فیصد) الیکشن کمیشن دفتر میں زیر عمل ہیں۔ ریاض داودزی نے مزید بتایا کہ خواتین نے چھ جب کہ مردوں نے 94 فی صد شکایات بھیجیں۔

انہوں نے بتایا کہ اکثر ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ کمیشن کو اتنی کم شکایات کیوں موصول ہوتی ہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا آئیڈیل یہ ہوگا کہ انہیں ایک بھی شکایت موصول نہ ہو اور پبلک باڈیز عوام کو ستائے بغیر معلومات فراہم کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‘اگر شکایات کم آتی ہیں تو اس کا مطلب ہے متعلقہ دفاتر جہاں سے شہری معلومات حاصل کرنے کے متمنی ہیں وہ ان کو معلومات کی ترسیل کر رہے ہیں۔ تاہم اگر شکایات زیادہ ہوں تو اس کامطلب یہ ہے کہ سرکاری ادارے معلومات دینے پر رضامند نہیں جو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ اگر شکایات اور درخواستیں دونوں کم ہوں تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عوام کا اس قانون پر اعتماد نہیں یا پھر ان میں شعور نہیں۔’

ریاض نے مزید بتایا کہ ہر اپیل کو نمٹانے کے لیے آٹھ ہفتے کی حد مقرر ہے۔ ‘تاہم کرونا وبا کے بعد ہمارے کام میں تین فی صد کمی واقع ہوئی۔ اس سے قبل ہم دن میں تقریباً 10سے15 شکایات نمٹاتے تھے اب زیادہ سے زیادہ چھ کیسز دیکھتے ہیں۔‘

کس قسم کی معلومات زیادہ مانگی جاتی ہیں؟

کمشنر آر ٹی آئی نے بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر میرٹ لسٹ کی شکایات آتی ہیں تاکہ وہ جان سکیں کہ کس شخص کو کس بنیاد پر منتخب کیا گیا۔ ‘حیرت اس بات پر ہے کہ لوگوں کی زیادہ دلچسپی تعمیر وترقی کے منصوبوں میں ہونی چاہیے تھی اور اس کے حوالے سے معلومات حاصل کرتے۔ ‘

انہوں نے کہا کہ ایسی بھی درخواستیں موصول ہوئیں جن میں دوسروں کی بیویوں کی عمر تک پوچھی گئی۔ ‘بعض لوگ ایک ہی درخواست میں مختلف موضوعات پر بہت ساری معلومات ایک ساتھ مانگ لیتے ہیں، جنہیں رد کر دیا جاتا ہے۔’

کن اداروں کو جرمانے اور شوکاز نوٹس ملے؟

کمیشن کے مطابق 2014سے 2020 تک 70 سرکاری اداروں کو معلومات فراہم نہ کرنے پر شوکاز نوٹس جب کہ 21 پر جرمانے عائد کیے گئے، جو پانچ ہزار سے 50 ہزار روپے تک ہوتے ہیں۔

جرمانہ کیے جانے والے نامور اداروں میں پشاور پریس کلب، پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی، پی ڈبلیو ڈی پشاور، عبدالولی خان یونیورسٹی، سینٹرل پولیس آفس، ریسکیو 1122، پریس کلب مردان، صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا اور دیگر پبلک باڈیز شامل ہیں۔

رائٹ ٹو انفارمیشن کمشنر نے بتایا کہ وبا کے دوران پشاور کی پبلک باڈیز کی معلومات تک رسائی کے لیے کمیشن نے پہلی مرتبہ آن لائن سسٹم متعارف کرایا جسے بہت جلد دیگر اضلاع تک پھیلایا جائے گا تاکہ کاغذی جھنجھٹ سے عوام کو چھٹکارا دلایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی ‘رائٹ ٹو انفارمیشن’ کے بارے شعور نہیں رکھتی۔ آر ٹی آئی کمیشن کے مطابق کہ اگر پبلک باڈیز سے حاصل کرنے والی معلومات کو غلط طور پر استعمال کیا گیا تو ایسے اشخاص کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان