مزاحیہ ڈراما اب خود ’مذاق‘ بن گیا ہے

کیا وجہ ہے کہ آج بھی بہروز سبزواری کو چاہنے والے ’قباچہ‘ کہہ کرمخاطب کرتے ہیں اور حامد رانا اور شیبا حسن کو ان کے اصلی نام سے زیادہ ’سونا چاندی‘ کہہ کر یاد کیا جاتا ہے؟

الف نون کے منظر آج تک لوگوں کو نہیں بھولے (پاکستان ٹیلی ویژن)

کبھی آپ نے سوچا ہے کہاں گئے حسنات بھائی، قباچہ، حامد پیا، جیدی، سونا چاندی، بل بتوڑی، الف نون، ڈائریکٹ حوالدار، خواجہ اینڈ سن، عینک والا جن، یا پھر جانو جرمن جیسے کردار، جو جب جب ٹی وی اسکرین پر جلوہ افروز ہوتے تو چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جاتیں، جن کے جملے گدگدی کرتے اور انداز ایسا ہوتا کہ لوٹ پوٹ ہوئے بغیر دل نہ چاہتا۔

کیا دور تھا جناب کہ ان جیسے مزاحیہ کردار وں کے چلبلے اور شگفتہ جملوں سے آراستہ تکیہ کلام کو غیر معمولی مقبولیت بھی ملتی۔ آج بھی ماضی کے بیشتر اداکار اپنے انہی مخصوص جملوں اور مزاحیہ کرداروں کی وجہ سے فنی سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ذرا پلٹ کر دیکھیں تو ان کرداروں سے ایک تعلق اب تک برقرار سا محسوس ہوتا ہے۔

 آج بھی بہروز سبزواری کو چاہنے والے نوشا یا پھر قباچہ کہہ کر ہی مخاطب کرتے ہیں۔ اسماعیل تارا، ماجد جہانگیر، زیبا شہناز اور اشرف خان کی پہلی پہچان ’ففٹی ففٹی‘ کے لوٹ پوٹ کرتے کرداروں سے ہی ہوتی ہے۔ حامد رانا اور شیبا حسن کو ان کے اصلی نام سے زیادہ ’سونا چاندی‘ کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک جمشید انصاری ’حسنات بھائی‘ کے نام سے مشہور رہے۔

کچھ یہی صورت حال ’الف نون‘ کے کمال احمد رضوی اور رفیع خاور کے ساتھ بھی تھی۔ افضل خان نے کئی کردار ادا کیے لیکن ’جان ریمبو‘ کی قید سے باہر نہیں نکل پائے۔ کس کس کا ذکر کریں اور کس کا نہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ جہاں ڈرامے یا فلم کی کہانی بوجھل ہونے لگے، کرداروں کے درمیان تلخیاں اور تناؤ پھیلنے لگے تو یہ کردار اپنے دلچسپ اور طنزیہ جملوں سے ناظرین کی بوریت اور اکتاہٹ کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہونے لگتے ہیں۔

گئے وقتوں میں ایسے مزاحیہ کرداروں کا انتظار ناظرین بڑی بے چینی سے کرتے۔ کہیں کوئی ’چقو ہے میرے پاس‘ کی صدا لگاتے ہوئے، تو کوئی یہ کہتا نظر آتا کہ ’حامد پیا کچھ نہ کیا،‘ کہیں شیدا ٹلی سیاست کے اکھاڑے میں اپنا فن دکھا رہا ہوتا، کہیں کوئی ’خوشبو لگا کے‘ کا کہہ کر اپنی کیفیت کو بیان کرتا، تو جناب کہیں چھوٹے پانڈے اسمال کراکری کی تکرار کانوں کو بھلی لگتی، کہیں اکبر لہراتے بل کھاتے انداز میں ’صاحب‘ کہہ کر ’آنگن ٹیڑھا‘ کو سیدھا کرنے کی جستجو کرتا۔

حد تو یہ ہے کہ طارق عزیز کے مکالمے ’دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں‘ کو بھی عوامی مقبولیت ملتی لیکن اب یہ سب کچھ فسانہ بن کر رہ گیا ہے۔

ذہن پر ذرا زور دیں اور یاد کریں بلکہ ڈھونڈ کر دکھائیں فی زمانہ نشر ہونے والے ڈراموں میں سے ایسے کرداروں اور چٹ پٹے جملوں کو۔ مزاح کے نام پر تو اب مذاق ہی ہو رہا ہے۔ ڈھیر سارے ڈراموں کی کہانیاں میں صنف نازک کے صرف اور صرف مختلف منفی روپ ہی پیش کیے جا رہے ہیں۔ کہیں بے وفا بیوی ہے تو کہیں کوئی شک کی جلن کا شکارشوہر، کہیں شوہر کسی اور مہ جبیں سے نین سے نین ملانے کے لیے بے تاب، کہیں ساس کا خوف ناک انداز تو کہیں جنونی نند، کسی کی جانی دشمن، کوئی کسی پر دل کی بھڑاس نکال رہا ہے، تو کہیں فطرت کے زہریلے روپ رونگٹے کھڑے کر رہے ہیں اور کہیں کوئی سالی، بہنوئی پر عاشق ہے۔

طلاق کا کھیل تو ان ڈراموں کا پسندیدہ موضوع خیال کیا جاتا ہے۔ اب ’گھسی پٹی محبت‘ تو ہوتی ہے لیکن اس میں محبت ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، پریم گلی نام تو ہے پر پریمی چڑیا بھی اڑن چھو ہوچکی ہے۔ ان ڈراموں کی خواتین گھر کی بساط پر ایسی ایسی شاطرانہ چالیں چل رہی ہیں کہ سیاست دان تک شرما جائیں۔ اس قدر رنجشیں، تلخیاں اور سازشیں ان ڈراموں میں پنپ رہی ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہماری زندگیوں میں مزاح کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے؟

فارمولا یہ طے پا گیا ہے کہ کچھ خواتین کا خوف ناک اور لرزہ خیز روپ دکھایا جائے تو کچھ کو ’اللہ میاں کی گائے‘ ظاہر کیا جائے۔ وہ بھی ایسی مظلوم جو ظلم کے خلاف لب سی لے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ بس شاطر اور مکار کردار ہی سکرین پر نظر آئیں تاکہ ریٹنگ کی اس دوڑ میں نمبر لے جایا جائے۔

 ہر ڈراما سنجیدگی اور حساسیت کی درد ناک کہانی بن گیا ہے۔ تکیہ کلام یا مخصوص انداز پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور نہ ہی دلچسپ گیٹ اپ پر۔ شام سات بجے سے خواتین کو گھریلو سیاست کے داؤ پیچ ہی سکھائے جا رہے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب ’پرائم ٹائم ڈراموں‘ سے مزاحیہ کرداروں کو ایسا نکال دیا گیا ہے جیسے دودھ سے مکھی۔

خیر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اب مزاح لکھنے والے بھی نہیں رہے۔ عطاء الحق قاسمی، منو بھائی، اطہر شاہ خان، حسینہ معین، کیف رضوانی یا پھر منظرامام جیسے معیار کا مزاح لکھنا تو ناپید ہ وگیا ہے۔ جن کی ’ باریاں‘ لگی ہوئی ہیں، انہی کے رحم و کرم پر مزاحیہ ڈراما ہے۔

 ڈراما جو کسی زمانے میں تفریح تھا، اب اِسے دیکھنے پر وحشت کا گمان ہوتا ہے۔ زندگی کے جھمیلوں اور مسائل سے نبرد آزما انسان جائیں تو پھر کہاں؟ نیوز چینل الگ بلند فشار خون کا سامان مہیا کر رہے ہیں اور ڈرامے رہی سہی کسر پورا کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان درجنوں ڈراموں میں بس ہے تو تناؤ ہی تناؤ یا پھر کشمکش۔ کہیں کوئی رائٹر اس کوشش میں نہیں کہ ان ڈراموں میں طنز و مزاح کا عنصر یا پھر کوئی کردار ڈال کر ناظرین کے تھکے ماندے اعصاب کو سکون بخشے۔ عالم یہ ہے کہ ’پس پردہ قہقہے‘ لگا کر یہ یقین کرایا جاتا ہے، اس مکالمے پر ہنسنا ہی تھا۔

غور تو کریں ایک مزاحیہ مکالمے پر جس میں ہیرو، والدہ سے کہتا ہے کہ ’کچھ تو بولو‘ تو جواب میں وہ ’کچھ‘ کہہ کر ’مزاحیہ بلبلے‘ چھوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ کامیڈی بس یہ رہ گئی ہے کہ کسی علاقے کے مخصوص کھانے پینے کی چیز کو مکالمے میں استعمال کرکے خوش کر دیا جائے۔

گئے وقتوں میں عید تہوار پر خصوصی مزاحیہ ڈرامے تخلیق کیے جاتے۔ جیسے ہاف پلیٹ، عید ٹرین، روزی، اسپیشل عید فلائٹ وغیرہ، خیر خوشیوں اور تہوار کے مواقع پر کامیڈی ڈرامے اب بھی بن رہے ہیں جو ’کامیڈی آف ایرر‘ کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔

آج ہم فخریہ انداز میں بچپن میں دیکھے گئے ان مزاحیہ کرداروں اور فنکاروں کو یاد کرتے ہیں۔ لیکن کیا کسی نے سوچا کہ ہمارے بچے کل کی کون سے ڈرامے اور کردار یاد رکھیں گے؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ