'کیا میرا ڈراما دیکھ کر تمام سالیاں بہنوئی کے پیچھے پڑ جائیں گی؟'

ڈراما سیریل 'جلن' پر پیمرا کی پابندی پر ڈرامے کی مصنفہ سخت ناراض، کہتی ہیں کہ پابندی لگانے والوں نے در حقیقت ڈراما دیکھا ہی نہیں۔

ڈرامے میں منال خان، اریبہ حبیب اور عماد عرفانی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ (اے آر وائے ڈیجیٹل)

پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہونے والے ڈراما سیریل جلن پر 13 قسطوں کے بعد فوری پابندی عائد کر دی لیکن مصنفہ کے خیال میں یہ پابندی بےجا ہے۔

ڈرامے میں منال خان، اریبہ حبیب اور عماد عرفانی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ پیمرا کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق ’ڈرامے میں کئی چیزیں مذہبی اور سماجی اقدار کے خلاف ہیں اور اسے اس ضمن میں کئی شکایات موصول ہوئیں۔ اے آر وائی ڈیجیٹل کو بارہا متنبہ کیا گیا  کہ وہ مذکورہ  ڈرامے کے مواد کا جائزہ لے اور اسے پاکستانی اقدار کے مطابق بنائے۔‘

پیمرا کے مطابق اس نے تمام پاکستانی ٹی وی چینلز کو 18 اگست کو ایک مراسلہ جاری کیا تھا، جس میں ڈراموں کے مواد کو پاکستانی اقدار کے مطابق بنائے جانے سے متعلق ہدایت نامہ درج تھا۔

اتھارٹی کا کہنا ہے اے آر وائی چینل کی انتظامیہ نے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی، جس کے بعد حتمی اقدام کے طور پر ڈرامے پر پابندی عائد کردی گئی۔

واضع رہے کہ پیمرا اس سے پہلے بھی دو پاکستانی ڈراموں ہم ٹی وی کے ڈراما ’پیار کے صدقے‘  اور اے آر وائی ڈیجیٹل پر چلنے والے ڈرامے ’عشقیہ‘ کو دوبارہ نشر کرنے پر پابندی عائد کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ بول ٹی وی پر چلنے والے ٹک ٹاک ویڈیوز کے ایک شو پر بھی ’غیر اخلاقی‘ مواد ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے پابندی لگائی گئی۔

ڈراما سیریل 'جلن' پر پابندی کا پاکستانی ڈراموں کے لیے بنے کئی سوشل میڈیا گروپس میں شدید ردِ عمل آیا اور اس عمل کو پیمرا کی جانب سے ’ مورل پولیسنگ‘ یا اخلاقی پولیس گردی قرار دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے اس بابت ’جلن‘ کی مصنفہ سدرہ سحر عمران سے پوچھا کہ وہ اس پابندی کو کیسے دیکھتی ہیں تو انہوں نے کہا ’جن لوگوں کو اس ڈرامے پر اعتراض ہے حقیقت میں انہوں نے یہ ڈراما دیکھا ہی نہیں۔‘

انہوں نے کہا: 'جلن دو بہنوں کی کہانی ہے ناکہ سالی بہنوئی کے معاشقے کی، اس کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کس طرح بہنوں میں مقابلے سے خاندان برباد ہوجاتا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ ’پیمرا یہ بتادے کہ ہماری معاشرتی، ثقافتی، اخلاقی اور مذہبی اقدار ہیں کیا اور ہم کیا دکھا سکتے ہیں اور کیا نہیں۔ کیا یہ ڈراما دیکھ کر تمام کی تمام سالیاں اپنے بہنوئی کے پیچھے پڑ جائیں گی؟‘

سدرہ سحر عمران کا کہنا تھا کہ جن گھرانوں کو لگتا ہے کہ ان کے گھر کا ماحول اس ڈرامے سے خراب ہوسکتا ہے تو وہ اسے نہ دیکھیں، آج پاکستان میں درجنوں چینل ہیں وہ ریموٹ اٹھائیں اور چینل بدل دیں۔

سدرہ نے کہا کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ گھروں میں والدین کا رویہ بہت اہم ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں بڑے بھائی بہن سے بار بار کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے بھائی یا بہن کے لیے قربانی دیتے رہیں۔ اس بات کا اکثر چھوٹے بھائی بہنوں پر برا اثر پڑتا ہے ۔

جاوید جبار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ پیمرا کے قوانین میں اس بات کی اجازت ہے کہ یہ کسی نامناسب پروگرام مثلاً نفرت پھیلانے یا تشدد پر اکسانے جیسے معاملات پر اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرسکتی ہے، تاہم پیمرا کو یہ حق انتہائی ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا ہوتا ہے کیونکہ اس کا ناجائز استعمال بھی بہت زیادہ ہوسکتا ہے اور ہوتا بھی ہے۔

انہوں نے کہا: ’کئی مرتبہ صرف چند خطوط کی بنیاد ہی پر فیصلہ کرلیا جاتا ہے اور اس امر کو نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ پاکستان میں کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے خصوصاً میڈیا کے معاملات میں خود کو بہت زیادہ منظم کیا ہوا ہے اور وہ ایک حکمتِ عملی کے تحت پیمرا کو خطوط لکھتے رہتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ یہ کس حد تک اکثریت کی رائے ہے اور کسی بھی معاملے میں صرف چند خطوط کی بنا پر فیصلہ نہ کیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سماجی تنظیموں جیسے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، صحافی تنظیموں اور دیگر سول سوسائٹی کے اداروں سے بھی رائے لے کر فیصلہ کرے۔ 'ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ایک غیرجانب دار میڈیا فورم ہو جو ان معاملات کو دیکھے۔'

انہوں نے واضع کیا کہ پیمرا کی یہ پابندی نامناسب ہے کیونکہ اگر کسی کو یہ ڈراما پسند نہیں تو نہ دیکھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی