کیا ٹرمپ اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنا کر دوبارہ صدر بن سکتے ہیں؟

ٹرمپ نے متعدد بار اصرار کیا ہے کہ وہ ’کسی نہ کسی شکل میں واپس آئیں گے،‘ اور افواہیں گرم ہیں کہ وہ اپنی سیاسی پارٹی شروع کرنے جا رہے ہیں۔ ماضی میں امریکہ کے دوجماعتی سیاسی نظام پر ایک نظر۔

ّ(فائل تصویر: اے ایف پی)

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دینے کے متعلق مشاورت شروع کر دی ہے۔ ایک حالیہ ریلی میں اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا اگرچہ کرسی صدارت ان کے پاس سے جا رہی ہے لیکن اصل میں ’ان کی تحریک کا یہ محض نقطہ آغاز‘ ہے۔ سیاست میں قدم جمانے کے خواہاں ان کے بیٹے ڈن جونئیر نے کچھ عرصہ قبل دعوی کیا تھا کہ ’رپبلکن پارٹی اب ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ہے‘ جیسے یہ بھی ریئل اسٹیٹ کا حصہ ہو۔

بہت سارے اراکین کی ذاتی وفا داری کے باوجود اگر اس میں ذرا بھی صداقت ہوتی تو چھ جنوری اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ اور رپبلکن پارٹی کی اکثریت مشترکہ لائحہ عمل اپناتے۔ ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی اپوزیشن اور اپنی سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لیے انہیں مستقل ایسے قابل اعتماد ذاتی محاذ کی ضرورت ہے جس کے سفید و سیاہ کے مالک و مختار وہ خود ہوں۔ ابتدائی طور پر ایسے محاذ کا نام پیٹریاٹ پارٹی گردش کر رہا ہے۔

کیا یہ نتیجہ خیز ثابت ہو گا؟ الیکشن سے لے کر حالیہ دنوں تک چندہ مہم کے ذریعے تقریباً 250 ملین ڈالرز کی خطیر رقم سے لگتا ہے کہ ٹرمپ ذاتی دولت سے ایک روپیہ بھی خرچ نہ کریں پھر بھی پیسے کا کوئی مسئلہ نہ ہو گا۔ ٹرمپ ریاستی اراکین اسمبلی اور وفاقی اراکین اسمبلی سمیت رپبلکن جماعت کے دیگر اہم عہدے داروں کو توڑ کر با آسانی اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ یقیناً ان کے حامیوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور وہ OANN (ون امریکن نیوز نیٹ ورک) جیسے ہمدرد نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا پر اپنی کرشماتی شخصیت کی بدولت اپنی نئی جماعت بہت آسانی سے متحرک بھی کر سکتے ہیں۔

جہاں تک ووٹوں کی بات ہے تو ٹرمپ نے گذشتہ نومبر میں 74 ملین ووٹ حاصل کیے جو کسی بھی رپبلکن امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اگر ہم قیاس آرائی سے کام لیتے ہوئے ٹرمپ کی پیٹریاٹ پارٹی کو 2024 کے الیکشن کا حصہ سمجھیں تو یقیناً وہ لاکھوں ووٹ اور ممکنہ طور پر ٹیکسس اور فلوریڈا جیسی اہم ریاستوں میں سیٹیں بھی لے جائے گی لیکن بحیثیت مجموعی پورا الیکشن جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

البتہ ایک بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ یہ ممکنہ طور پر معلق پارلیمنٹ اور وائٹ ہاؤس کی کرسی صدارت تک پہنچنے کے راستے کو پیچیدہ کر دے گی (جب کوئی امیدوار جیت کے لیے لازمی درکار 270 ووٹ نہ لے سکے گا تو معاملہ ہارس ٹریڈنگ یا ڈیڈ لاک کی صورت میں کانگرس تک پہنچے گا۔ یہ ایک اور آئینی بحران ہو گا)۔

اپنے مخصوص انداز میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے ٹرمپ اپنی تحریک کے متعلق کہتے ہیں کہ ’اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی‘ لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ در حقیقت دو جماعتی امریکن نظام میں تیسری جماعت کی مداخلت ایک عام معمول رہی ہے۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی جماعت نے وائٹ ہاؤس کی کرسی صدارت کبھی نہیں جیتی (وہ مختلف ریاستوں میں بھر پور طاقت کا مظاہرہ ضرور کرتی رہیں) البتہ کسی ایک بڑی جماعت کے لیے وہ فتح کی راہ میں رکاوٹ ضرور بنیں۔ امریکہ کے الیکٹورل سسٹم اور خود مختار صدارتی نظام (پارلیمانی نظام کے برعکس) میں تیسری جماعت بادشاہ بنے نہ بنے لیکن ہمیشہ کسی بڑی جماعت کا دھڑن تختہ کر کے بادشاہ گر ضرور رہی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے آزاد امیدواروں نے کئی بار ایسی صورت حال پیدا کی کہ ڈیموکریٹک اور رپبلکن امیدواروں میں سے جیتنے والا کبھی نہ جیت پاتا اگر وہ الیکشن میں حصہ نہ لیتے۔ رالف نیڈر (گرین پارٹی) نے اگرچہ محض 2.7 فیصد ووٹ حاصل کیے لیکن وہ تاریخ بدلنے کے لیے کافی ثابت ہوئے۔ 2000 میں الگور کے مشہور زمانہ سخت مقابلے میں رالف کی بائیں بازو میں مقبولیت کا براہ راست اثر ڈیموکریٹکس کے ووٹ پر پڑا اور رپبلکن امیدوار جارج ڈبلیو بش صدر بن گئے۔

جارج ڈبلیو بش خوش قسمت تھے ورنہ ان کے والد جارج ایچ ڈبلیو بش 1992 میں راس پیرو کی وجہ سے الیکشن نہ جیت سکے کیونکہ بطور آزاد امیدوار انہوں نے رپبلکن پارٹی کے وہ تمام حامی اپنی طرف کھینچ لیے جو کسی صورت بھی ڈیموکریٹک بل کلنٹن کو ووٹ دینے کو تیار نہ تھے۔

 اسی طرح 1968 میں رچرڈ نکلسن کی محض 40 فیصد ووٹوں کے ساتھ فتح دراصل نسل پرست جارج والس کی مرہون منت تھی۔ والس ریاست ایلاباما کے سابق گورنر تھے جن کا نعرہ تھا ’نسلی بنیاد پر تفریق آج، کل اور ہمیشہ کے لیے۔‘

انہوں نے بطور سابق ڈیموکریٹ رہنما اور ڈکسی کریٹ پارٹی کے رکن کی حیثیت سے جنوبی ریاستوں میں نامزد ڈیموکریٹ امیدوار ہیوبرٹ ہمفری کے ووٹ توڑے۔

ڈیموکریٹ پارٹی سے منحرف ہونے والے سابق نائب صدر اور بائیں بازو کے روشن خیال رہنما ہنری والس اور جنوبی ریاستوں میں نسل پرستی کے علمبردار گورنر سٹروم تھرمنڈ کی 1948 کے الیکشن میں شرکت نے ہیری ٹرومین کو غیر متوقع فتح سے ہمکنار کیا۔

نسل پرستی اور بائیں بازو کی انتہا پسند سیاست کے خلاف ڈٹ جانے والے ٹرومین کی طرف سیاہ فام اور جنوبی ریاستوں کے اعتدال پسند کھنچے چلے آئے۔

 1948 کی نسل پرست ڈکسی کریٹ پارٹی جس طرح بعض علاقوں میں ڈیموکریٹکس کی واحد طاقت ور آواز بن کر ابھری اسی طرح ٹرمپ کی نئی جماعت بھی یہ کردار ادا کر سکتی ہے جو کسی کریٹ کی روحانی پیروکار ہے۔ چار جنوبی ریاستوں میں جیت، 39 الیکٹورل نشستیں اور ان کے لیے نسل پرستانہ سیاسی جد و جہد ٹرمپ کے لیے ہرگز کافی نہیں لیکن ممکن ہے وہ مزید کامیابیاں بھی سمیٹ لیں کون جانتا ہے؟

 اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1980 کے انتخابات میں بطور مرکزیت پسند آزاد امیدوار جان اینڈرسن اور 1996 میں راس پیرو کی دوسری کوشش کوئی چمتکار دکھا سکی نہ 1960 میں جنوبی ریاستوں میں نسل پرستانہ بنیادوں پر 15 الیکٹورل ووٹ کینیڈی اور شہری حقوق کی جد و جہد کا راستہ نہ روک سکے۔ 

اگر ماضی کو کھنگالا جائے تو بیسویں صدی کے آغاز میں روزویلٹ کی شکل میں ایسی منفرد مثال موجود ہے جب کسی سابق صدر نے اپنی جماعت کے خلاف الیکشن لڑتے ہوئے محض اپنی مقبولیت کی بنیاد پر اچھی خاصی ہلچل پیدا کی ہو۔ ٹرمپ کی طرح روزویلٹ بھی ایک کرشماتی شخصیت اور خارجہ پالیسی میں علی الاعلان قوم پرست صدر تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عہد حاضر میں ٹیکنالوجی کی دیو قامت شخصیات کی طرح اس وقت ریل، تیل اور سٹیل کے کاروبار سے وابستہ بھاری بھرکم لوگوں کی اجارہ داری قائم تھی جسے ختم کرنے کے لیے روزویلٹ بہت سرگرم تھے البتہ وہ ٹرمپ کے برعکس بڑی بڑی باتوں کے بجائے عملی اقدامات پر یقین رکھتے تھے۔

مزید موثر انداز میں اپنے عزائم بروئے کار لانے کے لیے انہوں نے 1908 میں صدارت چھوڑ دی لیکن اپنے جانشین رپبلکن ساتھی ٹافٹ سے وہ بہت جلد مایوس ہو گئے۔ اس کے بعد اپنی مقبولیت کے پیش نظر انہوں نے پروگریسو پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بڑی بڑی کاروباری شخصیات کی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا بھر میں امریکہ کی طاقت کا سکہ جمانا اور باہر سے آنے والے مہاجرین کی تعداد محدود کرنے کے ٹرمپ جیسے اقدامات کے ساتھ ساتھ کرپشن اور بھاری محصولات کے خلاف جنگ، مزدوروں کے حقوق اور صحت کی بنیادی سستی سہولیات کی فراہمی کی جد و جہد بھی شامل تھی۔

اس پارٹی کو اس کے نشان کی مناسبت سے ’بُل مُوس‘ (نر بارہ سنگھا) پارٹی کہا جاتا تھا۔ ایک اور وجہ روزویلٹ کی شخصیت کا کھردرا اور کھلی فضا میں رہنے والے انسان کا تاثر تھا (ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ وہ اتنے طاقتور ہیں جتنا نر بارہ سنگھا)۔

 1912 کے انتخابات میں روزویلٹ نے متاثر کن حد تک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 27 فیصد ووٹ لیے جس کا براہ راست نقصان ٹافٹ اور فائدہ ڈیموکریٹک کے امیدوار ولسن کو ہوا جنہوں نے بعد میں روزویلٹ کے چند مقبول منصوبوں کو اپنا لیا۔ 1920 کی دہائی میں پروگریسو پارٹی کسی نہ کسی صورت میں فعال رہی اور تب رپبلکن کے بجائے ڈیموکریٹکس کے لیے شدید مشکلات پیدا کرتی رہی۔

اگر تاریخ سے کسی حد تک مستقبل کی پیش بینی ممکن ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ کم سے کم 2024 کے انتخابات میں ٹرمپ رپبلکن کو فتح سے محروم کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے اس خدشے کے پیش نظر رپبلکن ٹرمپ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔ یہاں تک کہ ممکن ہے ووٹ کی تقسیم اور یقینی شکست سے بچنے کے لیے ٹرمپ خود کو (یا اپنے خاندان میں سے کسی دوسرے فرد کو) رپبلکن کا نامزد امیدوار بنانے کا مطالبہ کریں۔ دوسرا راستہ مختلف ریاستوں میں پیٹریاٹ کے استعمال سے رپبلکن میں اپنے حامیوں کی مدد سے اپنا راستہ ہموار کرنا ہے۔

 ورنہ آخری حل روزویلٹ کی طرح تن تنہا میدان میں کودنا ہے۔ ممکن ہے 2015-16 کی طرح وہ سب کو حیرت سے دوچار کرتے ہوئے امریکی سیاست کا رخ نئی سمت کو موڑ دیں۔ بالفرض معاشی بحران کی وجہ سے بائیڈن ہیرس انتظامیہ لڑکھڑا جائے، رپبلکنز میں بھی پھوٹ پڑ جائے، ٹرمپ کی جماعت پیٹریاٹ کاملا ہیرس کے خلاف نسل پرستی کا نعرہ لگائے تو عین ممکن ہے آج محض ایک بپھرا ہوا ہجوم کل کو حقیقی عوامی تحریک میں تبدیل ہو کر 2024 میں بغاوت سے (بالکل آئینی طریقے سے) تختہ الٹ دے۔

اگرچہ یہ بالکل غیر متوقع ہے لیکن اس امکان کو کون نظر انداز کر سکتا ہے؟

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ