ٹرمپ خود اپنی بیان بازی کا نشانہ بنے، مگرامریکی نقصان کا ازالہ ؟

کئی لوگوں کو امید ہے کہ ٹرمپ کو امریکی تاریخ میں ایک غلطی سمجھا جائے گا، ایک ایسا سیاسی حادثہ جس کے دوبارہ ہونے کا امکان نہیں ہے اور ان کی قسم کی سیاست کی یہ شکست حتمی ہو گی۔

ٹرمپزم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ٹرمپ اور ان کی شعوری سمجھ بوجھ کے بغیر نہیں باقی رہ سکتا (فائل تصویر:  اے ایف  پی)

ڈونلڈ ٹرمپ کے دو پر جوش حامی مرنے کے بعد جنت جا پہنچتے ہیں۔ یہاں آنے کے فوری بعد وہ خدا سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں: 'برائے مہربانی کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ کیا صدر ٹرمپ نے الیکشن میں فتح حاصل کی تھی یا وہ دھاندلی کی وجہ سے ہارے تھے؟'

خداوند کا جواب آتا ہے کہ 'میں آپ کو یقینی طور پر بتا سکتا ہوں کہ جو بائیڈن نے صدارتی انتخاب منصفانہ انداز میں جیتا ہے اور الیکٹورل کالج میں انہیں 232 کے مقابلے میں 306 ووٹ ملے تھے اور کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔' ٹرمپ کے حامی انہیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے چند لمحوں بعد ایک دوسرے سے سرگوشی کرتے ہیں کہ 'میں دیکھ سکتا ہوں کہ یہ سازش تو اس سے بھی بلند سطح کی ہے جتنا ہم نے سوچ رکھا تھا۔'

اس کہانی کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے ایسے امریکی حامی ہمیشہ موجود رہیں گے جو اس بات پر قائل ہوں گے، چاہے اس بات کے شواہد ہوں یا نہ ہوں کہ ان کے رہنما کو وائٹ ہاؤس میں رہنا چاہیے تھا۔ کچھ تجزیہ کار اس بات کی بہت اداسی سے پیش گوئی کرتے ہیں کہ ٹرمپزم کی زندگی ٹرمپ سے بھی طویل ہو گی۔ وہ ان سات کروڑ چالیس لاکھ ووٹوں کو دیکھتے ہیں جن میں اکثریت ری پبلکنز کی ہے جو ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے فضول بیان پر یقین رکھتے ہیں۔

دوسری جانب کئی لوگوں کو امید ہے کہ ٹرمپ کو امریکی تاریخ میں ایک غلطی سمجھا جائے گا، ایک ایسا سیاسی حادثہ جس کے دوبارہ ہونے کا امکان نہیں ہے اور ان کی قسم کی سیاست کی یہ شکست حتمی ہو گی۔

گذشتہ چار سال کے دوران میں یہ محسوس کرتا رہا ہوں کہ صدر ٹرمپ کے مخالفین نے ان کی طاقت اور کمزوریوں کو غلط سمجھا ہے۔ کہیں انہیں کمتر سمجھا گیا ہے اور کہیں انہیں ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک خود پسند اور اپنی تشہیر پسند کرنے والے فرد ہیں جو کہ سیاست دانوں میں پائی جانے والی ایک مشترکہ خصوصیت ہے۔ لیکن ٹوئٹر کے ذریعے اور ہمدرد ٹیلی ویژن فاکس نیوز کو استعمال کرکے خبروں پر غلبہ پانے کی ان کی صلاحیت غیر معمولی ہے۔

یہ ایک مشکل کام ہے، چہ جائیکہ ایسا کئی سالوں تک کیا جاتا رہے اور یہ اخباروں اور نیوز کاسٹس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی ٹویٹس کی صورت میں جاری رہے۔ مکمل جھوٹ اور ذاتی سکینڈلز نے انہیں بہت کم نقصان پہنچایا جبکہ ان کی ٹیلی ویژن ریٹنگز بڑھتی رہیں۔ اب یہ ری پبلکن رہنماؤں کے لیے بہت مشکل ہو گا یا شاید ناممکن ہو کہ وہ ٹرمپ جتنی حمایت حاصل کر سکیں۔

کئی افراد کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ اگلے چار سال کے لیے سیاست سے مکمل طور پر باہر نہیں ہوں گے اور وہ اپنی ساحلی پر تعیش رہائش گاہ مار الاگو سے جنرل چارلس ڈیگال کے امریکی روپ کی طرح جھانکتے رہیں گے، جیسے وہ کولمبے لیس ڈیوکس اگلیسیس سے اقتدار میں واپسی کے منتظر رہے۔ لیکن یہ ناممکن ہو گا خصوصاً جب وہ وائٹ ہاؤس سے باہر ہوں گے اور ان کے پاس اپنے معتقدوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے حکومتی اختیارات نہیں ہوں گے۔ ان کے پاس ٹوئٹر اور فاکس نیوز تک بطور میگا فون فوری رسائی نہیں ہو گی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ تنہا ہو جائیں گے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ اب وہ ہمیشہ کے لیے تفریح بخش نہیں رہے ۔ یہ خصوصیت ان کی مستقل موجودگی کو یقینی بناتی تھی خاص طور پر ان ٹیلی ویژن سٹیشنز پر بھی جو ان کو ناپسند کرتے تھے۔ اس بات نے انہیں ایک طویل عرصے تک امریکہ سمیت دنیا بھر میں نیوز ایجنڈے پر غلبہ دلائے رکھا ہے اور یہ ان کے دوستوں اور دشمنوں کے لیے ایک معمول کی بات تھی، لیکن الیکشن کے بعد سے ان کی تفریحی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید پاگل پن کا شکار محسوس ہوتے ہیں خاص طور پر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ انہیں صدارتی دفتر سے باہر رکھنے کے لیے الیکشن میں ڈاکا ڈالا گیا ہے۔

ٹرمپزم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ٹرمپ اور ان کی شعوری سمجھ بوجھ کے بغیر نہیں باقی رہ سکتا۔ ایک ریئلٹی ٹی وی سٹار کے طور پر انہیں یہ علم تھا کہ معلومات سے بھرپور اس دور پر غلبہ کیسے پانا ہے۔ ٹرمپزم کبھی بھی ایک نظریہ نہیں تھا جیسے کہ 1920 یا 1930 کی دہائیوں میں یورپی فاشزم تھا، لیکن یہ مختلف اقسام کے خوف، نفرت اور خوابوں کا ایک غیر منظم مجموعہ ہے۔ اس قسم کی باقی تحریکوں کی اکثریت کے مقابلے میں ٹرمپزم کو ایک رہنما کی ضرورت ہے۔

جو بائیڈن ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کو پہنچائے جانے والے نقصان پر کس حد تک قابو پا سکیں گے؟ سادہ حقیقت یہ ہے کہ ایک ملک پر ایک غیر مستحکم نیم پاگل شخص کا حکومت نہ کرنا اس کی اندرون ملک اور بیرون ملک وقار اور فعالیت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس وقت ہر جانب موجود سیاسی اسٹیبلشمنٹس سکھ کا سانس لے رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن یہ حقیقت کہ امریکہ ایک ایسا رہنما پیدا کر سکتا ہے جو کووڈ 19 کے بحران میں بد انتظامی سے کام لے جس میں چار لاکھ امریکی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہو گی جو اس دنیا کی مشترکہ یادداشت سے بھلائی نہیں جا سکے گی۔

تمام بڑی طاقتیں اپنی برتری کے لیے کسی حد تک فریب اور مبالغے سے بھرپور تصورات پر انحصار کرتی ہیں۔ یہ فریب ختم ہو چکا ہے اور امریکہ ہمیشہ کے لیے کمزور ہو چکا ہے۔ یہ ہمیشہ سے واضح رہنا چاہیے تھا کہ امریکہ ایک بہت زیادہ منقسم ملک ہے۔ ابتدائی طور پر ایسا نسلی تقسیم، غلامی کی تاریخ اور خانہ جنگی کی وجہ سے ہے۔ ایک موقعے پر اسے ایک غیر متعلقہ تاریخ قرار دیا جاتا تھا لیکن مزید ایسا نہیں ہو سکتا۔ چھ جنوری کو کیپیٹل پر ہونے والے بلوے کے بعد مستقبل میں یہ امید کی جا سکے گی کہ جو ایک بار ہوا ہے وہ پھر بھی ہو سکتا ہے۔

انتہائی دائیں بازو کے ہجوم سے تعلق رکھنے والے افراد جو طویل سزاؤں کا سامنا کر سکتے ہیں، قابل فہم طور پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ صرف صدر ٹرمپ کی ہدایات پر عمل کر رہے تھے جو انہیں سمجھ آئی تھیں۔ ٹرمپ کے لیے ان سب سے لا تعلقی کا اظہار آسان نہیں ہو گا۔

اپنی انتہاپسندانہ بیان بازی کی بدولت ٹرمپ نے ٹیکسوں میں کٹوتیوں اور ضوابط میں کمی کے روایتی ری پبلکن پروگرام کو بہت کم ہی آگے بڑھایا ہے۔ ان کے 'پیچھے رہ جانے والوں' کی اکثریت کے لیے انہوں نے الفاظ اور وعدوں سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔

ٹرمپ کے اس منصوبے کے پیچھے ایک جعلی پن کار فرما تھا اور کیپیٹل پر بلوے کے دن ان کی جذباتی اور لڑاکے پن پر مبنی تقریر میں ایک عجیب اطمنان کی جھلک تھی کیونکہ شاید انہیں امید تھی کہ اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا اور یہی شاید اب انہیں برباد کر دے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ