میشا شفیع اور علی ظفر تنازع عدالت کی بجائے میڈیا پر حل ہو گا؟

گلوکار علی ظفر اور میشاشفیع کے درمیان ہراسانی کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باوجود دونوں جانب سے معاملے کو سوشل میڈیا کے بعد ملکی میڈیا پر بھی لڑنےکا آغازکر دیاگیا ہے۔ کیا یہ عدالت پر عدم اعتماد ہے؟

گلوکار علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان ہراسانی کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باوجود دونوں جانب سے معاملے کو سوشل میڈیا کے بعد ملکی میڈیا پر بھی لڑنےکا آغازکر دیاگیا ہے۔ کیا یہ عدالت پر عدم اعتماد ہے؟

ملک کے دومعروف گلوکار جو ایک عرصے تک مختلف میوزک شوز میں ایک ساتھ کام بھی کرتے رہے ان کے درمیان کچھ عرصہ پہلے ہراسانی کے الزامات کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے۔

ان کا انکشاف تو سوشل میڈیا پر ہوا اور پھر معاملہ عدالت بھی پہنچ گیا۔

ان دنوں یہ معاملہ ملکی میڈیا پر خوب اچھالا جارہا ہے اور دونوں فریقین عدالت کے فیصلے کا بھی انتظار کرنے کو تیار نہیں۔

میشا شفیع نے گزشتہ سال19اپریل کو اپنے ٹویٹر اکاونٹ سے ایک پیغام جاری کیا کہ دسمبر 2017 میں اسلام آباد کے ایک موسیقی شو کی ریہرسل کے دوران ساتھی گلوکار علی ظفر نے انہیں جنسی ہراساں کیا ہے اور وہ خاموش نہیں رہیں گی بلکہ اپنا قانونی حق استعمال کریں گی۔

انہوں نے صوبائی محتسب پنجاب کو گلوکار علی ظفر کے خلاف ہراسانی کی درخواست دی جو ان دونوں کے سرکاری ملازم نہ ہونے کی تکنیکی بنیاد پر خارج ہو گئی۔

بعد ازاں گلوکارہ نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر دی جس کی سماعت جاری ہے۔ اسی دوران علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کے الزام پر ایک ارب روپے ہرجانے کا دعوی دائر کر دیا۔

ان دونوں کیسوں کی سماعت آئندہ ہفتے ہوگی۔ دونوں فریقین کی جانب سے عدالت میں بھی مقدمے کی پیروی جاری ہے جب کہ سوشل میڈیا اور ملکی میڈیا دونوں اس تنازعے کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔

معروف قانون دان گوہر نواز سندھو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے کئی فیصلوں میں زیر سماعت کیسوں کو عوامی فورم پر زیر بحث لانے سے روکا گیا ہے۔

کئی مقدمات کو عوامی سطح پر اٹھانے کا مقصد عدالتوں پر عوامی رائے کا دباو ڈالنا بھی ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ میشا شفیع اور علی ظفر کیس کو عوامی سطح پر اٹھانے کا مقصد بھی یہی نظر آتا ہے۔ لیکن کئی بار ججز دانستہ ایسا کرنے والوں کی سرزنش بھی کرتے ہیں۔ 

دوسری جانب گلوکارہ میشا شفیع کی وکیل نگہت داد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موکل کوکسی مرد کی جانب سے جنسی ہراساں کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باجود عوامی سطح پر متاثرہ خواتین سے اظہار ہمدردی ضروری ہے۔ اس طرح کے جرائم میں ملوث افراد کی حوصلہ شکنی کے لیے بہت سے مرد خواتین سوشل میڈیا پر میشاء شفیع کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ نگہت داد کے مطابق: ’ہمارا مقصد خواتین کے حقوق کو پامال کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہے اس سے عدالتی فیصلوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘ انہوں نے اعلان کیا کہ میشا شفیع کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔

میڈیا مہم:

علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان شروع ہونے والے ہراسانی کے اس معاملے کاانکشاف سوشل میڈیا سے ہوا اورپھر ڈیڑھ سال تک دونوں جانب سے دونوں شخصیات کے حامی اور مخالف اس بارے میں کھل کر رائے دیتے رہے۔

 عام شہری ہی نہیں ملکی اور غیر ملکی بڑے بڑے شوبز سے وابستہ ستارے بھی سوشل میڈیا کے زریعے میدان میں کود پڑے اس بارے کسی نے میشا کی حمایت کی تو کسی نے علی ظفر کو بے گناہ قراردیا۔

ان دنوں اس معاملہ کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ بات یہیں نہی رکی بلکہ اب یہ گونج سوشل میڈیا سے ملکی میڈیا پر منتقل ہوگئی ہے۔

  7اپریل کو کراچی میں ہونے والے لکس ایوارڈ میں بھی اس معاملے کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی کیونکہ طیفا ان ٹربل فلم کے ہیرو علی ظفر کو بہترین اداکار کے ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا دوسری جانب اسی شو میں مشاء شفیع بھی بہترین گلوکارہ نامزد ہوئیں شو سے چند دن پہلے ایوارڈ کے نامزد تین خواتین سمیت میشاء شفیع نے ایوارڈ لینے سے معزرت کر لی کہ اگر خواتین کو ہراساں کرنے والے (علی ظفر)اس تقریب میں آئیں گے تو وہ شریک نہیں ہوں گی۔

گلوکار علی ظفر  نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے اس شو کی ریہرسل کی ویڈیو بھی جاری کی اور سوال اٹھایا کہ جس جگہ میشا شفیع ان پر جنسی ہراسانی کا الزام لگا رہی ہیں وہاں تین لوگ مزید بھی تھے اور وہ انہیں خوشی خوشی گلے مل کر روانہ ہوئیں اور انہیں دسمبر میں ہونے والے واقعہ کا خیال چار ماہ بعد کیوں آیا۔

علی ظفر کا یہ بھی کہنا تھا کہ میشا ان پر الزام لگا کرہمدردیاں حاصل کر کے غیرملکی شہریت چاہتی ہیں اور وہ انکی شہرت سے بھی جلتی ہیں۔ 

جب کہ میشا شفیع بھی ٹی وی شوز میں اپنے الزام کا دفاع کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آرگنائزرز کی شرط پر واقعہ کے بعد علی ظفر کے ساتھ کام کیا اور اس دوران انہیں مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ وہ جنسی ہراسانی کا الزام عدالت میں ثابت کریں گی۔

معاملہ اس بھی آگے اس وقت بڑھ گیا جب کراچی کے سینما گھروں کے باہر علی ظفر کی فلم طیفا ان ٹربل کی نمائش کے وقت انکی آمد سے پہلےانکے خلاف احتجاج شروع ہوگیا اور اب سوشل میڈیا پر طیفا ان ٹربل فلم دکھانے والےلاہور کے سینما گھروں کے باہر بھی خواتین کی جنسی ہراسانی کے خلاف احتجاج کی مہم چلائی جارہی ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے عدالت اس کیس کا فیصلہ جو بھی سنائے لیکن طیفا واقعی ان ٹربل ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فن