گوادر: تصویری مقابلہ جس میں پہلی بار خواتین نے حصہ لیا

مقامی ٹیلنٹ کو اجاکر کرنے، فوٹوگرافی کو فروغ دینے اور گوادر کی ثقافت کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے مقصد سے گوادر میں تصویری مقابلہ۔

(بہرام بلوچ)

خوبصورت ساحلوں اور اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان بسا بلوچستان کا شہر گوادر ہمیشہ ہی فوٹوفراگروں کے لیے پرکشش رہا ہے۔

ایسی کئی ویڈیوز اور تصاویر آپ کو مل جائیں گی جو سیر و تفریح کے لیے آئے فوٹوگرافر یا بلاگر یہاں سے بنا کر لے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں تو وائرل ہو جاتی ہیں۔ مگر مقامی ٹیلنٹ کی تصاویر کم ہی نظر آتی ہیں۔

اسی لیے مقامی فوٹوگرافروں کے کام کو اجاگر کرنے اور فوٹو گرافری کے فروغ اور گودار کی ثقافت سے آگاہی کے مقصد سے گودار میں ایک تصویری مقابلے کا انعقاد کیا۔

ضلعی انتظامیہ، محکمہ ثقافت بلوچستان اور آر سی ڈی کونسل گوادر کے تعاون سے انعقاد کیے گئے مقابلے میں آٹھ کیٹیگریز تھیں اور چون فوٹوگرافرز کی 250 تصاویر رکھی گئیں۔

اس مقابلے کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں مردوں کے ساتھ خواتین فوٹوگرافرز نے بھی حصہ لیا اور داد بنٹوری۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقابلے کے منتظم ناصر رحیم سہرابی کے مطابق گوادر میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقابلہ ہے، جس میں خواتین فوٹوگرافرز نے بھی حصہ لیا۔ 

مقابلے میں خواتین کی کیٹیگری میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی شاہینہ رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فائن آرٹس کی طالبہ ہیں اور فوٹو گرافری بھی اسی کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ گوادر کی پہلی خاتون آرٹسٹ بھی ہیں۔

اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گوادر کی جگہوں کو دکھانے والے اپنے فن پارے وہ اکثر تصاویر سے ہی بناتی ہیں کیونکہ وہاں جا کر بیٹھ کر بنانا مشکل ہے۔ لیکن جب وہ اپنے بھائی یا کسی اور کو تصویر لینے بھجتی تھیں تو وہ اس طرح کی نہیں لاتا تھا جو ان کو چاہیے ہوتی ہیں، اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ تصاویر خود ہی باہر جا کر لے لیں گی۔

 

انہوں نے کہا کہ بلوچ معاشرے میں کسی خاتون کا اکیلے باہر نکلنا اور فوٹوگرافری کرنا مشکل ہے اور ایسی ہی صورت حال کا سامنا انہیں بھی رہتا ہے۔

’اب بھی کبھی کبھی گھر والے اکیلے باہر جانےکی اجازت نہیں دیتے اور بھائی وغیرہ ساتھ ہوتے ہیں، میں باقاعدہ پردے کا اہتمام کرتی ہیں۔‘ 

شاہینہ سمجھتی ہیں کہ مکران اور گوادر کی خوبصورتی کو محفوظ کرنے کا واحد ذریعہ فوٹو گرافی ہے، جو یہاں کےمقامی لوگ اور باہر سے آنے والے بھی کررہے ہیں۔ 

مقابلے میں شامل اپنی تصاویر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ان کے تھیسز کا حصہ ہیں، جو انہوں نے گوادر کے ان مقامات کا دورہ کرکے لی ہیں جن کو معدومی کا خطرہ ہے۔ 

اس تصویری نمائش کو ’گوادر کی زندگی اور ورثہ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ججوں میں معروف فوٹو گرافر شرجیل بلوچ بھی شامل تھےجن کا کہنا تھا کہ ان تصاویر میں سے بہترین کا انتخاب انتہائی مشکل کام تھا کیونکہ ہر فوٹوگرافر کا کام ایک سے بڑھ کر تھا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تصویر کہانی