جنوبی پنجاب کا بڑا جنگل جل کر تباہ، کسی کو پروا ہے؟

پاکستان میں سیاسی گہماگہمی کے دوران کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی کہ جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا جنگل جل کر تباہ ہو گیا۔

جنگل کی آگ (پکسابے/ فائل فوٹو)

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں لیکن ایسے ملک میں لاشاری والا جنگل میں دو ہفتے کے اندر دو بار آگ لگنا بےحد تشویش ناک بات ہے۔

لیکن ملک کی سیاسی گہما گہمی میں جنوبی پنجاب میں واقع سب سے بڑے جنگل میں آگ بھڑک اٹھنے کی اہمیت اتنی تھی کہ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ وہ آگ جس  کے باعث ہزاروں ایکڑ پر مشتمل جنگل جل کر تباہ ہو گیا اور ان گنت پرندے اور جانور بھی مارے گئے۔

اہمیت تھی تو اس بات کی کہ کون پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں کتنی نشستیں لے جائے گا، کون چیئرمین سینیٹ بنے گا، کیا یوسف رضا گیلانی سینیٹر بننے میں کامیاب ہوں گے، کیوں سات ووٹ خارج ہوئے، کیا واقعی سینیٹ کے پولنگ بوتھ میں جاسوسی کرنے والا کیمرا نصب تھا، اگر تھا تو کس نے کیا وغیرہ وغیرہ۔

لاشاری والا جنگل میں دو ہفتے کے اندر دو بار آگ ’بھڑکی۔‘ لاشاری والا جنگل ہیڈ تونسہ بیراج کے قریب واقع ہے جو 16 ہزار ایکڑ پر محیط ہے۔ قیمتی درختوں کے علاوہ سینکڑوں پرندے اور جانور بھی جل کر مر گئے۔ اطلاعات کے مطابق یہ آگ مبینہ طور پر دو طاقتور سیاسی شخصیات کے درمیان جنگل کے قبضے کا شاخسانہ ہے۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان نے جنگل میں آگ لگنے کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ فنڈ کے مطابق پاکستان کے محکمہ جنگلی حیات کے پاس کسی قسم کا ڈیٹا موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ لاشاری والا جنگل میں کتنے اور کس قسم کے درخت ہیں اور اس جنگل میں کون کون سے پرندے اور جانور پائے جاتے ہیں۔

موسمی تبدیلی کے باعث جنگلات پر دنیا بھر میں توجہ دی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں شاید اس کو نہ تو توجہ دی جا رہی ہے اور نہ ہی زیادہ آگاہی۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں جنگلات کُل رقبے کا 33 فیصد تھا جو کہ 1990 میں کم ہو کر محض 3.3 فیصد رہ گیا۔ اور 2015 میں اس سے بھی مزید کم ہو کر 1.9 فیصد رہ گیا۔

ایسی تشویش ناک صورت حال کے باوجود ملک میں جنگلات میں لگی آگ کے واقعات کے حوالے سے اور کس پیمانے پر آگ لگی کے بارے میں کسی قسم کا ڈیٹا موجود نہ ہونے کو حکومتی لاپروائی اور بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ایسی اہم معلومات کی عدم موجودگی کے باعث قومی سطح پر جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے پالیسی یا سٹریٹیجی نہیں بنائی جا سکی ہے۔

جنگلات ہماری روز مرہ کی زندگی سے لے کر وہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں کا اہم جزو ہے۔ جنگلی حیات کو خوراک سے لے کر ان کی پناہ گاہ تک جنگلات کی اہمیت کو جتنا زیادہ اجاگر کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم جنگلات کی تباہی کو خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ 

 لاشاری والا جنگل کا شمار رامسر سائٹس میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں 2400 رامسر سائٹس موجود ہیں جن میں سے 19 سائٹس پاکستان میں ہیں۔ رامسر کنونشن ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کے تحت ان سائٹس کا تحفظ فرض بنتا ہے۔

پاکستان اس بین الاقوامی معاہدے کا حصہ 23 نومبر، 1976 میں بنا۔ ملک میں اس وقت 19 ایسی سائٹس ہیں جو کہ رامسر سائٹس ہیں جن کا کُل ملا کر رقبہ 33 ہزار ایکڑ سے زیادہ بنتا ہے۔

رامسر کی ویب سائٹ کے مطابق یہ علاقہ حکومت پنجاب کی ملکیت ہے اور محمکمہ زراعت کے پاس اس کا نظام ہے۔ اس سائٹ کو سب سے پہلے جنگلی حیات کی سینکچیوری 1972 میں قرار دیا گیا، پھر دوبارہ اپریل 1983، پھر جولائی 1988 اور آخر میں مارچ 1993 میں۔

رامسر کے مطابق اس سائٹ کو پہلے ہی سے غیر قانونی طور پر درختوں کی کٹائی اور ان کو آگ لگائے جانے سے خطرہ لاحق تھا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا کہ محکمہ جنگلی حیات کو معلوم ہی نہیں ہے کہ اس جنگل میں کس قسم کے درخت لگے ہیں، کتنے پرانے ہیں اور تعداد کیا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

گذشتہ سال ستمبر میں بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے دشت کے جنگلات میں آگ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے کم از کم 40 کلومیٹر  رقبہ اپنی لپیٹ میں لے لیا اور درخت اور چرند پرند سمیت سب کو ختم کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محکمہ جنگلات کا اس وقت کہنا تھا کہ ان کو بھی سوشل میڈیا ہی سے معلوم ہوا ہے کہ جنگل میں آگ لگ گئی ہے۔ اس وقت یہ بھی کہا گیا کہ جائزہ لینے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ جنگل میں کتنے اہم درخت موجود تھے۔

پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت وائلڈ لائف سینکچیوری میں درختوں کی کٹائی ممنوع ہے لیکن ملک بھر میں ایسے مقامات میں لوگ اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے اور روز گار کے باعث درخت کاٹتے ہیں۔

اگرچہ ملک کے محکمہ وائلڈ لائف کو تو شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ لاشاری والا جنگل میں کون سے جانور اور ان کی تعداد کا لیکن ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سینکچیوری میں انڈس ہرن کا شمار خطرے سے دو چار حیات میں ہوتا ہے جبکہ سرخ لومڑی اور اود بلاؤ معدوم ہو گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہرن اس سینکچیوری کے کچھ علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی بقا کا دارومدار موثر نگرانی پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر 25 ہرن اس سینکچیوری میں موجود ہیں تو ان کی معدمیت میں 18 برس لگیں گے لیکن اگر 15 ہرن ہی ہیں تو ان کو معدوم ہونے کے لیے محض دس سال کا قلیل عرصہ لگے گا۔

رامسر سیکچیوری پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ 1974 کے تحت پروٹیکٹڈ ایریا یعنی محفوظ علاقہ ہے۔ تو پھر دو بااثر شخصیات اس پر کنٹرول کرنے پر کیوں لڑ رہی ہیں جس کی قیمت جنگلی حیات، جنگلات اور پورے ملک کو اٹھانی پڑ رہی ہے۔

اس سے صرف اور صرف ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اس عالمی سینکچیوری کی نگرانی کے ذمہ داران غفلت کے مرتکب ہیں اور ملی بھگت کی وجہ سے غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی بھی نہیں کی جاتی۔

بلین ٹری سونامی کا نعرہ لگانے والی حکومت پر لازم ہے کہ اس واقعے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے اور ذمہ داران اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے لیکن صرف ایک یا دو امور میں نہیں تمام امور میں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات