جنوبی وزیرستان میں جنگلات کی بے دردی سے کٹائی

حکومت نے روزانہ لکڑیوں سے بھری 10 گاڑیاں افغانستان جانے کی اجازت دی تھی لیکن ٹمبر مافیا ہر روز 100 سے زائد گاڑیوں کے ذریعے لکڑیاں اور کوئلہ سمگل کر رہی ہے۔

وزیرستان میں گیس اور بجلی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا انحصار لکڑیوں پر ہوتا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی ضلعے جنوبی وزیرستان میں ضلعی حکومت کی پابندی کے باوجود ٹمبر مافیا جنگلات کے قیمتی درختوں کو بے دردی سے کاٹ رہی ہے۔

خیبر پختونخوا میں جنگلات کے چیف کنزرویٹر علی گوہر نے انڈپینڈنٹ اُردو کو بتایا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ وزیرستان میں جاری جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی لگائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے محکمہ داخلہ اور صوبائی حکومت کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا، جس کے بعد کٹائی میں کچھ کمی واقعی ہوئی ہے۔

علی نے بتایا کہ وہ خود وانا میں عمائدین سے ملے تھے اور 80 فیصد عمائدین متفق تھے کہ جنگلات کی کٹائی پر قومی اتفاق و اتحاد کی ضروت ہے مگر چند عناصر نے اس اتحاد کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ان کے مطابق سکیورٹی فورسز بھی اس تھگ و دو میں شامل ہیں کہ جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگائی جائے اور وانا سکاؤٹس فورس کے ایک سینیئر افسر نے ان کے ساتھ جرگے میں شرکت کی تھی۔   

جنگلات کی کٹائی کے حامی ایک مقامی شخص گل بوز نے بتایا کہ وہ کسی بھی صورت حکومت کے کہنے پر جگلات کی کٹائی کو بند نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چلغوزے کو نہیں بلکہ زندہ وار کے پہاڑی سلسلوں میں دوسرے درخت کاٹ رہے ہیں۔

گل بوز کے مطابق بعض ایسے درخت ہیں جو چلغوزے کے درختوں کے قریب ہونے کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچاتے ہیں لہٰذا ان کی کٹائی لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان درختوں کی لکڑیوں سے کوئلہ بنا کر افغانستان بھیج دیتے ہیں۔ ‘ان پہاڑی علاقوں میں لکڑیاں کاٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا روزگار نہیں، اگر حکومت نے روزگار کے مواقعے دیے تو جنگلات کی کٹائی خود بخود بند ہوجائے گی۔’

جنوبی وزیرستان میں افغان سرحد کے قریب پہاڑی سلسلے کو زندہ وار کہتے ہیں، جہاں قیمتی درختوں کو کاٹنے کے بعد کوئلہ بنا کر افغانستان سپلائی کر دیا جاتا ہے۔ خمرانگ سکیورٹی چیک پوسٹ کے اعداد و شمار کے مطابق افغان سرحد کے قریب تحصیل برمل سے روزانہ 100 سے زیادہ گاڑیاں افغانستان جاتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحصیل برمل سے تعلق رکھنے والے عبدالرحمٰن نے کہا کہ جنگل کی کٹائی پر ڈپٹی کمشنر نے پابندی کا حکم جاری کیا تھا، جس پر علاقے کے لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور ایک ہفتے تک پاکستان سے افغانستان جانے والی شاہراہ کو بند رکھا، جس کے بعد حکومت اور لکڑیوں کے کاروبار کرنے والی کمیٹی کے درمیان مذاکرات ہوئے اور حکومت کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ روزانہ 10 گاڑیوں کی سرحد پار جانے کی اجازت دے، جس میں چار گاڑیاں خُشک لکڑیاں اور چھ گاڑیاں کوئلے کی ہوں گی۔

انہوں نے بتایا کہ 10 گاڑیوں کے نام پر اب 100 سے زیادہ گاڑیاں سرحد پار افغانستان میں داخل ہوتی  ہیں۔ ‘حکومت نے اس وجہ سے اجازت دی تھی کہ لوگوں کا چولہا جلتا رہے مگر ٹمبر مافیا اُلٹا فائدہ اُٹھا رہی ہے۔’

زندہ وار میں درختوں کے کاٹنے کے نتیجے میں وانا پلن میں پانی کی سطح بُہت نیچے گر رہی ہے۔ زمین دار معراج الدین کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں پانی کی سطح 40 فٹ نیچے چلی گئی ہے، جس کے بعد مقامی زمین دار نئے کنویں کھودنے پر مجبور ہیں کیونکہ پُرانے کنویں ناکارہ ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پانی کی سطح اسی شدت سے گرتی رہی تو عنقریب وانا کے باغات خُشک ہوجائیں گے کیونکہ وانا میں کاریز کا نظام مکمل طور پر بند ہوچکا ہے اور اب تمام زمین دار کنویں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ وزیرستان میں گیس اور بجلی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ روزمرہ معمولات، سردی سے محفوظ رہنے اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے درختوں کو کاٹ کر جلاتے اور بیچتے ہیں۔   

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات