کراچی کی ایک نجی تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ آنے والے چند ماہ میں وہ کراچی شہر میں پیلو کے دس لاکھ پودے لگائے گی۔
پیلو کو انگریزی میں سلواڈورا پریسیکا، جبکہ سندھی اور پنجابی زبانوں میں کھبڑ کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔ اگرچہ پیلو سندھ کا مقامی درخت رہا ہے، لیکن ساحلی آب و ہوا کی وجہ سے کراچی میں پیلو کی بجائے دیگر درخت لگانے کا رجحان زیادہ رہا ہے۔
مذکورہ تنظیم سمال گرانٹس ایکشن نیٹ ورک کے چیف آرگنائزر مسعود لوہار کے مطابق : 'کراچی ایک ساحلی شہر ہے، جہاں سی لیول رائیز یعنی سمندری سطح کا چڑھاؤ، ٹراپیکل سائکلون اور سونامی جیسی قدرت آفات کا خطرہ ہوتا ہے، جن میں درختوں کے نہ ہونے کے باعث یہ خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں، ایسے میں کراچی شہر کو ان آفات سے بچنے کے لیے بڑی تعداد میں درخت درکار ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی کے لیے پیلو کے درخت کا ہی انتخاب کیوں؟ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا: 'ایک تو پیلو سندھ اپنا سودیشی یعنی مقامی درخت ہے اور یہ پھلدار درخت ہے اس پر چھوٹی چھوٹی بیریاں لگتی ہیں، جنھیں کھانے کے لیے بڑی تعداد میں چھوٹے مقامی پرندے آتے ہیں۔ ان میں ایک پرندہ جسے انگریزی میں سٹار لنگ، اردو میں تلیر کہا جاتا ہے، جو پیلو کی بیریاں کھانے بڑی تعداد میں آتا ہے اور یہ پرندہ ٹڈی دل کے خلاف سب سے بڑا قدرتی طریقہ ہے۔ اس لیے ہم نے کراچی میں پیلو لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں درخت، خاص طور پر پھلدار درخت نہ ہونے کے باعث مونو کلچر بن گیا ہے جس کے باعث کراچی میں چیل اور کوؤں جیسے شکاری پرندوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور دیگر مقامی پرندوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مقامی پھلدار درخت لگائے جائیں۔
لوہار کا کہنا تھا: 'پیلو کے درخت کی جڑیں زمینی کٹاؤ کو روکتی ہیں۔ یہ درخت اگانے سے قدرتی آفات کے خطرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اور پیلو کے لگنے سے کراچی کے حیاتیاتی تنوع یا بائیوڈائیورسٹی کا منظر مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔ سائیکلون اور سونامیوں کے خلاف یہ دفاع کا کام کرے گا۔'
ان کے مطابق، عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کراچی ساحلی شہر ہے اور سمندر کے کھارے پانی کی وجہ سے شہر میں پیلو کا درخت نہیں لگ سکتا، مگر کراچی کے منوڑہ جزیرے پر مینگروز کے درختوں کے ساتھ لگے پیلو کے درخت اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ کراچی میں پیلو کا درخت لگ سکتا ہے۔