زیارت:'تین ہزار سال قدیم' درخت بچانے کے لیے قانون سازی

یہ دنیا کا سب سے سست روری سے بڑھنے والا درخت ہے جو کہ سو سال میں ایک سے تین انچ تک بڑھتا ہے۔ یونیسکو نے 2013 میں اسے حیاتیاتی ذخیرہ قرار دیا ہے۔

علاقے میں لوگ زندگی کا گزر کرنے کے لیے درخت کاٹنے پر مجبور ہیں ۔(تصاویر: ندیم خان)

اب کمرے کی چار دیواری پر سفیدی نہیں رہی۔ جلائی گئی لکڑیوں کے دھویں نے کمرے کو سیاہ کر رکھا ہے۔ پکانے کے برتن بھی اپنی اصل شکل کھو کر راکھ کی مانند ہوگئے ہیں۔

جب کبھی لکڑیوں کا یہ دھواں لعیمہ کی آنکھوں سے ٹکراتا ہے تو اس کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو نکل آتے ہیں۔ اس کی زندگی تب تو اور بھی مشکل ہو جاتی ہے کہ جب سردی اپنے زوروں پر ہو۔

لعیمہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 126 کلومیٹر مشرق میں واقع ضلع زیارت کے نواحی علاقے چوتیر میں پیدا ہوئیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق 2017 کی مردم شماری کے تحت ضلع کی کل آبادی ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی ویب سائٹ کے مطابق ایک لاکھ دس ہزار ایکٹر پر مشتمل زیارت جونیپر دنیا کا دوسرا سب سے بڑا صنوبر کا جنگل ہے۔ یہاں ایک مکمل تن آور درخت کی عمر تین ہزار سال سے زائد ہے۔ یہ دنیا کا سب سے سست روری سے بڑھنے والا درخت ہے جو کہ سو سال میں ایک سے تین انچ تک بڑھتا ہے۔ یونیسکو نے 2013 میں اسے حیاتیاتی ذخیرہ قرار دیا ہے۔

صنوبر کے درختوں سے ماحولیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا سایہ پانی کو آبی بخارات کی شکل میں اڑنے سے روکتا ہے اور یوں زیر زمین پانی کی مقدار طویل عرصے تک رہتی ہے۔

لعیمہ آج بھی کھانا جنگل کی لکڑیوں کو جلا کر بناتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’زیارت میں سال کے نو ماہ شدید سردی رہتی ہے۔ کمروں کو گرم رکھنے  کے لیے ہم لکڑیوں کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ زیارت کے بازار تک تو سوئی گیس کی سہولت موجود ہے لیکن ہمارے علاقے چوتیر میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔‘

 

وہ نہیں چاہتیں کہ صنوبر کے درختوں کو کاٹا جائے لیکن علاقے میں لوگ زندگی کا گزر کرنے کے لیے ایسا کرنے مجبور ہیں۔ لعیمہ کہتی ہیں کہ اگر آج بھی ان کے علاقے میں گیس کی سہولت مہیا کر دی جائے تو جنگل کی کٹائی رک جائے گی اور ان کے روز مرہ گھر کے کام بھی آسان ہوجائیں گے۔

 زیارت کے ایک سماجی کارکن اور صنوبر کے جنگلات کی دیکھ بھال کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ کام کرنے والے محمود ترین بتاتے ہیں کہ ہر سال زیارت میں دو سے تین ہزار درخت لگاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صنوبر کے درخت کوئٹہ، لورالائی اور قلات میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ’یہ بہت دیر سے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت نایاب ہیں جس کی شجر کاری نہیں کی جاسکتی۔ یہ قدرتی طور پر پیدا ہو کر ارتقائی مراحل سے گزرنے والا درخت ہے۔‘

ارتقائی عمل کا تذکرہ کرتے ہوئے محمود ترین نے بتایا کہ صنوبر کا بیج جسے مقامی زبان پشتو میں (اوبوشتی) کہا جاتا ہے تب ہی درخت پیدائش کر سکتا ہے کہ جب کوئی پرندہ اس بیج کو کھا کہ فضلے کی شکل میں خارج کر دے۔ ’وہی فضلہ صنوبر کے درخت کا بیج ہوتا ہے لیکن پرندے کا کھا کہ فضلے کی شکل میں خارج کرنا لازمی ہے۔ اس قدرتی عمل کے دوران اکثر مال مویشی بیج کو یا صنوبر کے چھوٹے پودوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ زیارت کے لوگ کسی بھی جگہ پر جا کر مال مویشیوں کے لیے چراہ گاہیں بنا لیتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا درست نہیں۔ محکمہ جنگلات کو چاہیے کہ وہ چراہ گاہوں کے لیے ایسی جگہ کا تعین کرے جہاں صنوبر کے پودے ابتدائی مراحل میں نہ ہوں۔‘

محمود ترین نے بتایا کہ ’مقامی افراد کو صنوبر کے درختوں سے کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے لوگ زراعت اور باغوں کی خاطر زمین پیدا کرنے کے لیے صنوبر کی کٹائی کر رہے ہیں۔ سیب کا ایک درخت سال میں ہزاروں روپے تک کا منافع کما کے دیتا ہے جس کی وجہ سے زیارت کے رہائشی صنوبر کے درختوں کو کاٹ اس کی جگہ پھلوں کے درخت لگا رہے ہیں۔ اس طرز پر کٹائی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور اس عمل کے خلاف ہم نے احتجاجی مظاہرے بھی کئے ہیں تاہم صنوبر کی کٹائی میں انتظامیہ کی ملی بھگت شامل ہے۔‘

 

پروفیسر ظہور احمد بازئی نے زیارت جونیپر پر ایک تحقیقی مضمون شائع کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ جونیپر کی ڈی فاریسٹیشن کی وجہ سے اس کی موجودہ صورت حال اچھی نہیں جبکہ مستقبل میں اس جنگل کے بچ جانے کے امکانات خطرناک حد تک کم ہیں۔ وہ ان کی حفاظت کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

وکیل قمر النسا جنگلات کے تحفظ کے لیے بلوچستان فارسٹ ریگولیشن1890 کے قانون کو کافی کمزور سمجھتی ہیں۔ ان کے مطابق ’1890 میں بننے والے قانون میں 1974 میں ترمیم کی گئی جس کی رو سے درخت کاٹنے کی سزا 5000 روپے اور چھ ماہ تک کی قید ہوسکتی ہے تاہم یہ قانون موجودہ حالات کے مطابق نہیں جسے فوری طور پر مزید سخت کرنا چاہیے۔‘

محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر برائے شمال عبدالجبار نے بتایا کہ ان قیمتی درختوں کی کٹائی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں چند ایک مشکلات تو ضرور ہیں لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی تصاویر اپلوڈ کر سکتا ہے جس کی وجہ سے افسران کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ’سپریم اور ہائی کورٹ کے چیف جسسٹس صاحبان جنگلات کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے ہیں اور اسی ضمن میں چیف جسٹس نے ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ جسسٹس قاضی فائز عیسی نے کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ ملزم پر 5000 روپے کا جرمانہ عائد کرنا کافی کم ہے لہذا کاٹے گئے فی درخت پر 5000 روپے جرمانہ عائد کیا جائے۔

 عبدالجبار قانون کا تذکرہ ہوئے کہنے لگیں کہ محکمہ نے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے قانون کا مسودہ تیار کر رکھا ہے جو کہ اس وقت محکمہ قانون کے پاس ہے اور بہت ہی جلد اسمبلی سے بھی پاس کر لیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درختوں کی کٹائی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’زیارت کے علاقے چوتیر میں جولائی 2019 سے مارچ  2020 تک 22 عدد فارسٹ چالان کاٹ کر 33 ملزمان نامزد کئے گئے۔ تمام 22 عدد چالان جوڈیشل مجسٹریٹ سنجاوی کی عدالت میں جمع کئے جا چکے ہیں۔ عدالت نے 16 عدد فارسٹ چالان میں نامزد 23 ملزمان کو مجموعی طور پر 170000 روپے جرمانے کی سزائیں سناتے ہوئے دیگر نامزد 10 ملزمان کے وارنٹ جاری کئے ہیں۔ جولائی 2019 سے مارچ 2020 تک سپیرہ راغہ کے علاقے میں تین فارسٹ چالان میں تین ملزمان کو  سزا اور جرمانہ کیا گیا ہے۔‘

صوبے میں حزب اختلاف کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما غلام نبی مری کہتے ہیں کہ دیگر ممالک درختوں کی حفاظت کے لیے جامع پالیسی مرتب کرتے ہوئے قانون سازی کرتے ہیں لیکن یہ بدقسمتی رہی ہے کہ حکومتوں نے ماحولیات کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا اور بڑی بے دردی سے صنوبر کے جنگلات کو کاٹا جا رہا ہے۔

علام نبی مری سمجھتے ہیں کہ ’زیارت اور قلات کا شمار صوبے کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے جس کے اکثر علاقوں میں گیس نہ ہونے کے باعث لوگ لکڑیوں کو بطور ایندھن استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر حکومت ان علاقوں میں گیس کی فراہمی کو ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ نئے مضبوط قانون اور پالیسیاں بنائے تو اس نایاب صنوبر کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔‘

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کہتے ہیں کہ زیارت کا صنوبر ان کا سرمایہ ہے۔ حکومت ماحولیات کے معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ حال ہی میں گرین بلوچستان کے نام سے شجر کاری مہم کا آغاز کیا گیا تھا جبکہ ایسے تمام قوانین جو سن 1900 سے پہلے کہ ہیں انہیں تبدیل کیا جا رہا ہے جن میں فارسٹ ریگولیشن سمیت انڈسٹریز اور فشریز کے قانون شامل ہیں۔ متعلقہ اداروں سے قانون کے مسودے لے کر محکمہ قانون کو ارسال کر دیئے گئے ہیں جنہیں جلد ہی اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات