سہولت کے لیے وجود میں آنے والی پلاسٹک کی تھیلیاں آج زمین، پانی، ہوا اور زندگی کے لیے خطرہ بن چکی ہیں، جو صدیوں تک زمین میں باقی رہتی ہے، ندی نالوں کو بند کرتی ہے، آبی مخلوق کو نگلتی ہیں اور زہریلی گیسوں کی صورت میں انسانوں کے پھیپھڑوں تک جا پہنچتی ہیں۔
یہی خطرہ بھانپتے ہوئے سندھ حکومت نے 15 جون سے صوبے بھر میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کے استعمال، فروخت اور پیداوار پر مکمل پابندی نافذ کر دی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر پابندی کے پہلے روز ہی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی (ایس ای پی اے) کی ٹیموں نے کراچی کے مختلف کاروباری علاقوں کا دورہ کیا، جہاں دکانداروں کو وارننگز جاری کی گئیں اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی کا عندیہ دیا گیا۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں محض اعلانات کی حد تک محدود نہیں، بلکہ اس بار عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ماحول دوست سرگرمیوں کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے کراچی کے مختلف بازاروں میں جا کر دکانداروں اورشہریوں سے بات چیت کی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ عام لوگ اس پابندی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کا زمینی اثر کیا ہو رہا ہے۔
کراچی میں نرسری مارکیٹ میں گذشتہ کئی سالوں سے پکوان کا کاروبار کرنے والے عمران نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’وہ پلاسٹک بیگز کا استعمال طویل عرصے سے کر رہے ہیں اور اگرچہ انہیں پابندی کے نفاذ کا سن کر حیرت نہیں ہوئی، اس حوالے سے کسی قسم کی شعور بیداری کی مہم نہیں چلائی گئی۔‘
ان کے مطابق ایسی پابندیاں پہلے بھی آتی رہی ہیں، مگر عمل درآمد کا فقدان انہیں وقتی بنا دیتا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک صارف اور دکاندار دونوں کو ماحول دوست متبادل فراہم نہیں کیا جاتا، یہ پابندیاں محض کاغذی اعلان ہی رہیں گی۔
جب دکاندار عمران سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں علم ہے کہ پلاسٹک بیگز ماحول کے لیے مضر کیوں ہیں تو وہ اس سوال پر قدرے حیران نظر آئے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ پلاسٹک کے استعمال سے ماحول میں کس نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔
ان کی باتوں سے ظاہر ہوا کہ وہ اس معاملے میں مکمل طورپر لاعلم تھے۔
ساجد علی نامی شہری نے حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’پلاسٹک بیگز نکاسی آب کے نظام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ خاص طور پر مون سون کے دوران جب نالے بند ہوتے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہی تھیلیاں ہوتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ان بیگز کا استعمال اب اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ انہیں مکمل طور پر ختم کرنے میں شاید کئی سال لگیں، لیکن یہ اقدام ایک مثبت شروعات ہے۔
راؤ سہیل گذشتہ 28 سال سے پینٹ کی صنعت سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کی دوران حکومت کی سنجیدگی کو سراہا مگر ان کا کہنا تھا کہ ’اگر مینوفیکچررز کو اس عمل میں شامل نہیں کیا گیا اور مناسب متبادل متعارف نہیں کروائے گئے، تو یہ مہم پائیدار نہیں ہو سکے گی۔‘
ان کے مطابق روزانہ لاکھوں پلاسٹک بیگز مارکیٹ میں پہنچتے ہیں اور مختلف اشیا کی ترسیل ان ہی میں ہوتی ہے، اس لیے صرف پابندی لگانا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے ایک مکمل نظام درکار ہے۔
اس سارے معاملات پر انڈپینڈنٹ اردو سے ماحولیاتی سیکریٹری سندھ آغا شاہنواز نے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت کی جانب سے اس پابندی کے اطلاق سے قبل دکانداروں اور صنعت کاروں کو وارننگز اور مہلت دی گئی تھی، جو اب مکمل ہو چکی ہے۔ یہ مہم سنجیدگی سے جاری ہے اور صرف ایک دن میں ہی سیپا ٹیموں نے کورنگی اور ضلع وسطی کے بازاروں میں پلاسٹک بیگز کا استعمال روکنے والے دکانداروں کی نشاندہی کی، جبکہ خلاف ورزی کرنے والوں کو وارننگز دی گئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کو پلاسٹک سے پاک بنانا ایک بڑا چیلنج ہے مگر یہ مقصد مشاورت اور عمل سے حاصل کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’عالمی ماحولیاتی دن کے موقع پر مختلف جامعات میں سیمینارز اور آگاہی پروگرامز منعقد کیے گئے، جبکہ کراچی کے مختلف بازاروں اور شاپنگ مالز میں کپڑے کے تھیلے بھی تقسیم کیے گئے تاکہ عوام میں شعور بیدار کیا جا سکے۔‘
ماہر ماحولیات عامر عالمگیر نے بتایا کہ ’بغیر کسی آگاہی پروگرام کے پلاسٹک سے تیار شدہ اشیا کا استعمال نہیں تھما، لہذا بہت بڑے پیمانے پر ضرورت ہے کہ یونیورسٹی لیول تک سیمینارز رکھے جائیں، پابندی کا اطلاق اچھا اقدام ہے لیکن آگاہی سے ہی لوگوں میں شعور بیدار ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پلاسٹک بیگز زمین میں گلتے سڑتے نہیں بلکہ صدیوں تک ویسے ہی موجود رہتے ہیں۔ یہ زمین کی زرخیزی کو تباہ کرتے ہیں، آبی مخلوقات کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں اور اگر انہیں جلایا جائے تو ان سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہیں۔‘
ان کے مطابق دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں پلاسٹک بیگز پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کی جا چکی ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس پابندی کی اشد ضرورت تھی۔
ماہر ماحولیات نے کہا کہ ’حکومت کو صرف پابندیاں لگانے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ماحول دوست متبادل جیسے کپڑے یا کاغذ کے تھیلے فراہم کرنے چاہییں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور خود شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے پلاسٹک بیگز کے استعمال سے گریز کرنا ہوگا۔‘