ایک نئی تحقیق کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر عام گھریلو پلاسٹک کی مصنوعات میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کا سامنا ہر سال ہزاروں دل کی بیماری سے ہونے والی اموات کی وجہ بن سکتا ہے۔
سائنس دان طویل عرصے سے ان پلاسٹک کیمیکلز کے صحت پر ممکنہ اثرات سے خبردار کرتے آ رہے ہیں، جنہیں فتھالیٹس کہا جاتا ہے۔
یہ عام طور پر کاسمیٹکس، کپڑے دھونے کے پاؤڈر، سالونٹس، پلاسٹک کے پائپوں اور کیڑے بھگانے والے سپرے میں پائے جاتے ہیں۔
پہلے کی گئی تحقیق میں ان کیمیکلز کو موٹاپے، ذیابیطس، ہارمونز، تولیدی مسائل، اور سرطان کے مرض کے بڑھتے ہوئے خطرات سے جوڑا گیا۔
اب ایک نئی تحقیق میں ان پلاسٹک اجزا کو صرف 2018 میں دنیا بھر میں دل کی بیماری سے ہونے والی تین لاکھ 56 ہزار سے زائد اموات سے منسلک کیا گیا ہے۔
نیویارک یونیورسٹی لانگون ہیلتھ کے محققین نے ڈائی-2-ایتھائل ہیکسل فتھالیٹ یا ڈی ای ایچ پی پر تحقیق کی، جو کھانوں کے کنٹینرز، طبی آلات اور دیگر پلاسٹک مصنوعات
کو نرم اور لچکدار بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ محققین کو پتہ چلا کہ اس کا طویل مدت تک سامنا کرنے سے دل کی شریانوں میں سوزش ہو سکتی ہے جو وقت کے ساتھ دل کے
دورے یا فالج کے خطرے میں اضافہ کر سکتی ہے۔
تازہ ترین تحقیق، جو جریدے ای بائیو میڈیسن میں شائع ہوئی، میں یہ پایا گیا کہ ڈی ای ایچ پی نے 2018 میں 3 لاکھ 56 ہزار 238 اموات میں کردار ادا کیا، جو
اس سال 55 سے 64 سال کی عمر کے مرد و خواتین میں دل کی بیماری سے ہونے والی تمام عالمی اموات کا تقریباً 13 فیصد تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محققین نے ان اموات سے پڑنے والے معاشی بوجھ کا تخمینہ تقریباً 510 ارب ڈالر لگایا تاہم انہوں نے نشاندہی کی ہے کہ یہ رقم 3.74 کھرب ڈالر تک پہنچ سکتی
تحقیق کی شریک مصنف سارہ ہائمن نے کہا: ’دنیا بھر میں اموات کی ایک بڑی وجہ اور فتھالیٹس کے درمیان تعلق کو اجاگر کر کے، ہماری تحقیق ان وسیع
شواہد میں مزید اضافہ کرتی ہے کہ یہ کیمیکل انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔‘
اس تحقیق میں سائنس دانوں نے دو سو ممالک اور علاقوں میں ڈی ای ایچ پی سے متاثر ہونے کے عمل کا اندازہ لگانے کے لیے آبادی کے درجنوں جائزوں
سے حاصل شدہ صحت اور ماحولیاتی ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ ان اعداد و شمار میں پیشاب کے نمونے بھی شامل تھے جن میں اس پلاسٹک کے اضافی مادے کے باقی رہ جانے والے کیمیائی اجزا موجود تھے۔
تحقیق کے مطابق انڈیا میں فتھالیٹس سے منسلک اموات کی تعداد سب سے زیادہ رہی، جو ایک لاکھ 3 ہزار 587 تھیں، اس کے بعد چین اور انڈونیشیا کا نمبر ہے۔
سائنس دانوں کو شبہ ہے کہ ان ممالک میں ڈی ای ایچ پی سے منسلک زیادہ اموات کی وجہ پلاسٹک کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہو سکتی ہے۔
ان علاقوں میں دیگر خطوں کے مقابلے میں پیداواری پابندیاں کم ہیں۔
تحقیق کے سینیئر مصنف لیونارڈو ٹراسینڈے کہتے ہیں کہ ’دنیا کے کن حصوں کو فتھالیٹس سے بڑھتے ہوئے دل کے امراض کے خطرات کا سب سے زیادہ سامنا ہے، اس میں واضح عدم توازن موجود ہے۔‘
اگرچہ محققین نے خبردار کیا کہ نتائج کا مطلب یہ نہیں کہ ڈی ای ایچ پی براہ راست یا اکیلا دل کی بیماری کا سبب بنتا ہے، لیکن انہوں نے کہا
کہ ان کیمیکلز سے منسلک دل کی بیماریوں سے ہونے والی مجموعی اموات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر ٹراسینڈے نے کہا، ’ہمارے نتائج اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان زہریلے مادوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر فوری قوانین بنانے
کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں تیزی سے صنعتی ترقی اور پلاسٹک کا استعمال ہو رہا ہے۔‘
© The Independent