اگر آپ کی طبعیت بھی کچھ میری طرح کی ہے تو پیکیجنگ کے معاملے میں شاید آپ بھی بہتری چاہتے ہوں۔ شاپنگ کے لیے سپر مارکیٹ آتے ہوئے آپ کپڑے کا تھیلا لا سکتے ہیں یا نوکری پر جاتے ہوئے میٹل کی بوتل۔
آپ اپنا دوبارہ قابل استعمال کافی کپ مقامی کیفے لا کر ان سے اسے بھرنے کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں، جس پر آپ کو ڈسکاؤنٹ بھی مل سکتا ہے۔
آپ ایسا کرنے والے اکیلے نہیں ہیں کیوں کہ برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں 75 فیصد لوگ کم از کم تھوڑی بہت کوشش کرتے ہیں کہ وہ ڈسپوزیبل پلاسٹک پر انحصار محدود کریں۔
یہ اچھی بات ہے کیوں کہ موجودہ رجحانات کو دیکھا جائے تو 2060 تک دنیا میں پلاسٹک کا کچرا تقریباً تین گنا ہو جائے گا۔
چونکہ تمام تیار کردہ پلاسٹک کا 36 فیصد پیکیجنگ میں استعمال ہوتا ہے اس لیے پیکیجنگ کا بہتر انتخاب اس سے نمٹنے میں حقیقی اثر ڈال سکتا ہے۔
لیکن اس میں بھی ناگزیر مشکلات سامنے آتی ہیں۔ جب میں اپنی بوتل گھر پر چھوڑ دوں تو کیا کروں؟
میں ایک نئی خرید لوں گا اور کارپوریٹ سے ملنے والے تحائف میں شامل کر لوں گا جنہوں نے پہلے سے ہی میرے باورچی خانے کی الماری بھری ہوئی ہے۔
اس لیے زیادہ امکان ہے کہ میں ری سائیکل کرنے کا عہد کرتے ہوئے ایک ڈسپوزیبیل پلاسٹک کی بوتل کا انتخاب کروں گا۔
افسوس کے ساتھ میں جانتا ہوں کہ پہلی بار اس بوتل کو بناتے وقت جتنا کاربن کا مجموعی اخراج ہوا تھا اس کے مقابلے میں اس (ری سائیکلنگ) کا بہت کم اثر پڑتا ہے۔
یہ میرے لیے صرف ایک معمولی تکلیف نہیں ہے بلکہ اس میں ایک بڑی رکاوٹ ہے کہ ہم سب پلاسٹک اور ان سے وابستہ کاربن کے اخراج کو کیسے کم کرتے ہیں۔
ایلن میک آرتھر فاؤنڈیشن (ای ایم ایف) کی ایک حالیہ رپورٹ میں کھانے پینے اور ذاتی حفظان صحت سے متعلق مصنوعات میں دوبارہ قابل استعمال پیکیجنگ کے لیے بنیادی طور پر نئے طریقہ کار اپنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس نئے طریقہ کار میں ایک معیار کے اور دوبارہ قابل استعمال پیکیجنگ کا اشتراک کرنے والے متعدد کاروبار شامل ہیں جنہیں مرکزی سطح پر صفائی کے بعد تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا میں کسی ایک کیفے سے شیشے کی بوتل اٹھا سکتا ہوں اور اسے دوپہر کے کھانے پر ایک ریستوراں میں چھوڑ دوں اور اس طرح یہ واپس نظام کا حصہ بن جائے۔
تاہم یہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے یہ سب سے مؤثر حل نہیں ہو سکتا۔
جب کہ ایلن میک آرتھر فاؤنڈیشن کا تخمینہ ہے کہ سنگل یوز بوتلوں کے مقابلے میں ایک ہزار سے زیادہ بار دوبارہ قابل استعمال بوتلوں سے 69 فیصد کم گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوگا تاہم سنگل یوز پلاسٹک کو سنگل یوز کارٹنز (گتے کے ڈبوں) سے تبدیل کرنا زیادہ اثر انگیز ہے۔
2020 کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایک لیٹر دودھ کے لیے پیپر بورڈ سے بنائے گئے سنگل یوز کارٹن، پلاسٹک کی بوتلوں کے مقابلے میں کاربن اخراج میں 82 فیصد کم حصہ ڈالتے ہیں۔
یہ صرف ایک مشکل موازنہ ہے لیکن یہ ظاہر کرتا ہے کہ دوبارہ قابل استعمال پیکیجنگ پلاسٹک کے اخراج کے مسئلے کو حل کرنے کا واحد علاج نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کارٹن بھی مکمل طور پر پلاسٹک سے پاک نہ ہوں (کارٹن میں حفاظتی رکاوٹی تہہ کے طور پر تھوڑی مقدار میں پلاسٹک استعمال کی جاتی ہے) لیکن پھر بھی وہ پلاسٹک کی بوتلوں کے مقابلے میں بہت کم کاربن اخراج میں حصہ ڈالتے ہیں اور زیادہ تر لکڑی کے ریشوں سے بنے ہوتے ہیں۔
یہ ایک قابل تجدید ذریعہ ہے جو جنگلات کے تحفظ، پودے لگانے اور ان کی دیکھ بھال میں مدد دے سکتے ہیں۔
دریں اثنا دوبارہ قابل استعمال اشیا کے وسیع پیمانے پر استعمال کے لیے درکار بنیادی ڈھانچہ بھی ایک سنگین چیلنج ہے خاص طور پر ترقی پذیر دنیا میں جہاں بڑی مقدار میں پلاسٹک فضلہ پیدا ہوتا ہے۔
2022 میں انڈیا میں پلاسٹک کی کچھ اشیا پر مکمل پابندی لگانے کی کوشش کی لیکن اس کے بعد سے وہاں پلاسٹک کے فضلے کا حجم بڑھ گیا ہے جس کی وجہ جزوی طور پر قابل عمل متبادل کی کمی تھی۔
پلاسٹک کے بحران کی شدت اور عجلت کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایسے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن کو صارفین کے رویے اور رجحانات کو دیکھتے ہوئے آسانی سے بڑھایا جا سکے۔
اگرچہ ابھی تک برطانیہ میں یہ اتنا وسیع نہیں ہے لیکن یورپی یونین میں دودھ کی پیکنگ کا 75 فیصد اور جوس کا 59 فیصد حصہ کارٹن پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اب اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ انہیں گھر اور ذاتی سامان کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایلوپیک کی جانب سے 2023 میں کیے گئے مطالعے کے دوران برطانیہ اور جرمنی میں نصف سے زیادہ خریداروں نے کہا کہ وہ لانڈری ڈٹرجنٹ اور ہینڈ سوپ جیسی مصنوعات کارٹن پیکیجنگ میں خرید کر خوشی محسوس کریں گے۔
صارفین کے رویے میں اس تبدیلی کو مزید پرکشش بنانے کے لیے کمپنیوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
برطانیہ میں Sainsbury's اور سکینڈینیوین ممالک میں Orkla کمپنیاں پہلے ہی ایسا کر رہی ہیں جو بالترتیب 2023 اور 2021 سے کارٹن میں پری فِل لانڈری پروڈکٹس پیش کر رہے ہیں۔
جس کے ذریعے صارفین ہر بار پلاسٹک کے نئے کنٹینر کی خریداری کرنے کے بجائے گھر پر مستقل ڈسپنسر ٹاپ اپ کرا سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ایک انتہائی دلکش تجویز ہے اور ایلوپیک کے مطالعے کے مطابق برطانیہ کے 74 فیصد خریدار خوشی سے اس ماڈل کا انتخاب کریں گے۔
یہ صرف کنونشن اور مارکیٹنگ کا حصہ ہے کہ ہمیں صابن یا سرفیس کلینئرز کو پلاسٹک کی بوتل میں ہی خریدنا پڑتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں پلاسٹک کی لت کو چھوڑنے کا مطلب یہ سوال کرنا ہے کہ ہمیں اس کی اصل میں کہاں کہاں ضرورت ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں جمع کی ہوئی دوبارہ قابل استعمال پانی کی بوتلوں کو پھینک دوں گا۔
لیکن اس سے ہٹ کر جب مجھے ہوائی اڈے پر میٹھے مشروب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا میری بیوی یہ کہتی ہے کہ ہمارے پاس واشنگ لکوئڈ ختم ہو گیا ہے۔
تو اچھا ہو گا کہ پلاسٹک کی دوسری بوتل نہ اٹھائیں اور اس کے بجائے شیلف پر آسانی سے دستیاب کم کاربن والے کارٹن کا انتخاب کریں۔
ایسا کوئی کام نہیں ہے جو ہم نہ کر سکیں۔ دنیا بھر میں ہر منٹ میں 10 لاکھ پلاسٹک کی بوتلیں خریدی جاتی ہیں جن کی اکثریت کوڑے کرکٹ میں جمع ہو جاتی ہے۔
ان کو یا تو کارٹن یا دوبارہ قابل استعمال پیکیجنگ سے تبدیل کرنے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔
خاص طور پر کارٹن کے ذریعے ہم زیادہ آسانی سے ایک ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جہاں ہماری دکانوں اور گھروں میں پلاسٹک کی بوتلیں نایاب ہو جائیں۔
ٹامس کارمینڈی ایلوپیک کمپنی کے سی ای او ہیں، جو کارٹن پر مبنی پیکیجنگ کا عالمی سپلائر ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent