کیا ری سائیکلنگ ہمارے لیے فائدہ مند ہے؟ دنیا کے سب سے امیر شخص ایلون مسک ایسا نہیں سوچتے۔
20 کروڑ 78 لاکھ فالورز رکھنے والے مسک نے رواں ماہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ’ری سائیکلنگ بے مقصد ہے۔‘
ری سائیکلنگ کے ارادے تو اچھے ہیں لیکن مسئلے کی وسعت بہت زیادہ ہے کیوں کہ دنیا سالانہ 50 کروڑ 70 لاکھ ٹن پلاسٹک پیدا کرتی ہے، جس میں سے نصف کو ہی ہر سال دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔
لیکن کیا یہ عمل واقعی اتنا ہی بے فائدہ ہے جتنا کہ سپیس ایکس کے مالک نے دعویٰ کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ بہت سا پلاسٹک ری سائیکل نہیں ہو سکتا اور جو اشیا عام طور پر ری سائیکل کی جاتی ہیں وہ بھی اکثر لینڈ فلز (زمین کی بھرائی) میں استعمال ہو جاتی ہیں۔
تاہم اس سب کے باوجود بھی آپ کو اپنا ری سائیکلنگ کا کچرا سڑک کنارے نہیں ڈالنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویتریش نے خبردار کیا ہے کہ 2050 تک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہو سکتی ہے۔
آلودگی اب ’ہر جگہ، ہمارے اردگرد اور ہمارے جسم کے اندر، سمندروں سے لے کر خون اور دماغ تک‘ موجود ہے۔
1970 کی دہائی میں ری سائیکلنگ پروگرامز اور قانون سازی کے نفاذ کے بعد سے پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کی بھرمار ہوئی ہے۔
غیر منافع بخش تنظیم سیرا کلب کے مطابق 2015 کی ایک تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر پیدا ہونے والے پلاسٹک میں سے 10 فیصد سے بھی کم ری سائیکل کیا گیا۔
امریکہ میں 2017 میں صرف آٹھ فیصد پلاسٹک ری سائیکل کیا گیا اور صرف 14 فیصد اکھٹا کیا گیا۔
اس ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے مطابق 2018 میں صرف 32 فیصد امریکی کچرا ری سائیکل کیا گیا۔
دی ری سائیکلنگ پارٹنرشپ کی جنوری کی رپورٹ کے مطابق اس وقت صرف 21 فیصد رہائشی ری سائیکل ایبل اشیا ری سائیکل ہو رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ہر قسم کا مواد کم ری سائیکل ہو رہا ہے، اور زیادہ تر شیشے، کین اور پلاسٹک کی بوتلیں کچرے میں چلی جاتی ہیں کیونکہ کافی گھروں میں ری سائیکلنگ کی سہولت موجود نہیں۔
ری سائیکلنگ کی شرح مقام، پلاسٹک کی قسم اور اس کے استعمال کے مطابق مختلف ہوتی ہیں، اور دنیا کا زیادہ تر کچرا لینڈ فلز میں چلا جاتا ہے یا قدرتی ماحول میں کھو جاتا ہے۔
کبھی کبھی یہ ایسے مقامات پر بھیجا جاتا ہے جہاں اسے جلا دیا جاتا ہے یا مستقل طور پر پھینک دیا جاتا ہے۔
گرین پیس کی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر پلاسٹک، حتیٰ کہ وہ بھی جن پر تین تیر والے ری سائیکل کے سائن ہوتے ہیں، ری سائیکل نہیں ہو سکتا اور جو کچرا ری سائیکل کیا جا سکتا تھا اس کی مقدار کم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے وہ صارفین جو یہ کام کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ مشکل ہو گیا ہے۔
گرین پیس یو ایس اے کی سینیئر پلاسٹکس کمپینر لیزا رمزڈن نے کہا: کوکا کولا، پیپسی کو، نیسلے اور یونی لیور جیسی کارپوریشنز کئی دہائیوں سے پلاسٹک ویسٹ کے حل کے طور پر پلاسٹک ری سائیکلنگ کو فروغ دینے کے لیے انڈسٹری فرنٹ گروپس کے ساتھ کام کر رہی ہیں لیکن اعداد و شمار واضح ہیں یعنی عملی طور پر زیادہ تر پلاسٹک ری سائیکل نہیں ہوتا۔
’حقیقی حل دوبارہ استعمال اور دوبارہ بھرنے والے سسٹم کی طرف منتقل ہونا ہے۔‘
تین تیروں کا سائن پلاسٹک کی قسم کی نشاندہی کرتا ہے، جو اس کی مناسب پروسیسنگ کے بارے میں رہنمائی دیتا ہے، لیکن یہ سائن اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ یہ ری سائیکل ہوگا۔
خاص طور پر جو چیزیں ری سائیکل ہوتی ہیں ان کا معیار اکثر لیبلز یا کھانے کی باقیات سے آلودہ ہو کر کم ہو جاتا ہے اور ری سائیکل شدہ مصنوعات میں معیار کے لیے نئے پلاسٹک کا اضافہ کیا جاتا ہے۔
پلاسٹک نقصان دہ کیمیکلز خارج کر سکتا ہے اور اس میں کینسر پیدا کرنے والے مائیکرو پلاسٹکس بھی شامل ہو سکتے ہیں جو زمین پر تقریباً ہر چیز میں سرایت کر چکے ہیں۔
گرین پیس کی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق پلاسٹک میں 13,000 سے زیادہ کیمیکلز ہوتے ہیں، جن میں سے 3,200 سے زیادہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
گرین پیس یو ایس اے کے گلوبل پلاسٹکس کمپین لیڈ گراہم فوربز نے کہا: ’پلاسٹک کی صنعت — بشمول فوسل فیول، پیٹروکیمیکل اور کنزیومر گڈز کمپنیاں — پلاسٹک ری سائیکلنگ کو پلاسٹک آلودگی کے بحران کے حل کے طور پر پیش کرتی رہتی ہیں۔
’لیکن یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ری سائیکلنگ کے ساتھ پلاسٹک کی زہریلاپن میں درحقیقت اضافہ ہوتا ہے۔
’پلاسٹک کی سرکلر معیشت میں کوئی جگہ نہیں اور یہ واضح ہے کہ پلاسٹک آلودگی کو ختم کرنے کا واحد حقیقی حل پلاسٹک کی پیداوار کو بڑے پیمانے پر کم کرنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماحولیاتی بحران کے دوران ایم آئی ٹی کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ لوگوں کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ استعمال شدہ پلاسٹک کو لینڈ فلز میں ڈالیں۔
انڈسٹریل ایکالوجی نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ری سائیکلنگ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صرف 2-3 فیصد تک کم کرتی ہے۔
اینڈریو مکافی نے 2019 میں بزنس انسائیڈر کو بتایا: ’ری سائیکلنگ کے کاربن فوائد اور گرین ہاؤس گیس کے فوائد دراصل بہت کم ہیں، حقیقت میں یہ اس کے قابل نہیں ہیں۔‘
’ماحولیاتی طور پر جو چیز واقعی غیر معقول تھی، وہ یہ تھی ہم اس وقت تک کیا کر رہے تھے جب چین نے اس پر پابندی نہیں لگائی تھی یعنی ہم اپنے تمام پلاسٹک کو جمع کر کے سمندر کے پار ایک ایسے ملک بھیج دیتے تھے جو ماحولیاتی طور پر ری سائیکل کرنے کے بہت ہی برے طریقوں کا استعمال کرتا تھا۔‘
اس نظام کے نتائج ناقابل یقین حد تک واضح ہو چکے ہیں یعنی بوتلیں اور دیگر پلاسٹک ہمارے دریاؤں، جھیلوں اور سمندروں میں بہہ رہی ہیں۔ امریکہ دنیا میں پلاسٹک کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے۔
لیزا رمزڈن نے کہا: ’ اتنی زیادہ مقدار میں چھوٹے پلاسٹک کے ٹکڑوں کو اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہے جو سالانہ امریکی صارفین کو فروخت کیے جاتے ہیں۔
’زیادہ پلاسٹک پیدا ہو رہا ہے اور اس میں سے ایک چھوٹا حصہ ری سائیکل ہو رہا ہے۔ یہ بحران دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور اگر فوری تبدیلی نہ کی گئی تو یہ بدتر ہوتا جائے گا کیونکہ یہ انڈسٹری 2050 تک پلاسٹک کی پیداوار تین گنا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔‘
لیکن ’لاسٹ ویک ٹونائٹ‘ کے میزبان جان اولیور کے مطابق ان تمام رکاوٹوں کے باوجود اس کے ’ماحولیاتی فوائد بھی ہیں۔‘
پلاسٹک پولوشن کولیشن کہتی ہے کہ ری سائیکلنگ سے توانائی بچ سکتی ہے اور پانی کے استعمال میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ پلاسٹک کو ری سائیکل کرنا اسے جلانے سے بہتر ہے۔
بویسی سٹیٹ یونیورسٹی کے کالج آف بزنس اینڈ اکنامکس کے مطابق حالانکہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں، پھر بھی ری سائیکلنگ کچرے کو کم کرنے اور وسائل کو محفوظ رکھنے کی کوششوں کا ایک اہم حصہ بنی ہوئی ہے۔
بہرحال یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ایک مکمل حل نہیں اور یہ کہ ری سائیکلنگ سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کی بھی کچھ حدیں ہیں۔
’ری سائیکلنگ کو مزید مؤثر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آلودگی کم کرنے، بنیادی ڈھانچہ بہتر بنانے اور کچرے کو کم کرنے کی دیگر حکمت عملیوں کا جائزہ بھی لیا جائے یا پھر دیگر متبادل کو اپنایا جائے جیسے کچرا کم کرنا، کمپوسٹنگ، اپ سائیکلنگ اور دیگر طریقے۔‘
© The Independent