مچھروں کو روئے زمین سے مٹانے کا انسانی منصوبہ

سائنس دانوں نے وہ تکنیک دریافت کر لی ہے جس کے تحت مچھروں کو ختم کیا جا سکتا ہے، مگر اس کا ماحول پر کیا اثر پڑے گا؟

سائنس دانوں نے ایسے طریقے تیار کر لیے ہیں جن کے ذریعے بیماری پھیلانے والے مچھروں کو روئے زمین کے چہرے سے مکمل طور پر مٹایا جا سکتا ہے، لیکن کیا واقعی ایسا کرنا چاہیے؟

اتنے بڑے فیصلے کے نتائج ابھی نامعلوم ہیں اور حیاتیاتی اخلاقیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ ’دنیا کو انسانی خواہشات کے مطابق دوبارہ ترتیب دینے کے حق میں نہیں ہیں۔‘

امریکہ کی یونیورسٹی آف مونٹانا کے ماحولیاتی فلسفی کرسٹوفر پریسٹن نے حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ کو بتایا: ’جینیاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے مچھروں کا خاتمہ پوری دنیا سے ممکن ہو سکتا ہے لیکن یہ تھوڑا سا خطرناک محسوس ہوتا ہے۔‘

تاہم ہمارے پاس اب ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو خاص طور پر مادہ مچھروں کو نشانہ بنا سکتی ہے کیوں کہ مادہ مچھر کاٹتی ہیں اور ملیریا، ڈینگی، زیکا اور دیگر خطرناک بیماریاں پھیلاتی ہیں۔

جینیاتی آلات کی مدد سے سائنس دان مچھروں کے جینیاتی نظام میں ترمیم کر سکتے ہیں اور مادہ مچھروں کو بانجھ بنا سکتے ہیں۔


جنوری میں آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے بتایا کہ وہ نر مچھروں میں ایک تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں جس سے ان کے مادہ سے تعلق کے دوران نطفے میں موجود زہر مادہ کی عمر کم کر دیتا ہے۔

رواں ہفتے ہی میری لینڈ یونیورسٹی کے محققین نے بتایا کہ انہوں نے ایک ’جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری تیار کی ہے جو مادہ مچھروں میں ایک مہلک فنگس پھیلا دیتی ہے۔

میری لینڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ریمونڈ سینٹ لیجر نے کہا: ’یہ دراصل ہمارے اور مچھروں کے درمیان ایک ہتھیاروں کی دوڑ ہے۔ جیسے جیسے وہ ہمارے طریقوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیں، ہمیں بھی مسلسل نئے اور تخلیقی حل تیار کرنے پڑتے ہیں۔‘

اس فنگس کا سائنسی نام Metarhizium ہے اور جب اسے نر مچھروں پر چھڑکا جائے تو یہ ان کے ذریعے مادہ مچھروں میں نیوروٹاکسن داخل کرتی ہے جو انہیں بالآخر مار دیتا ہے۔ یہ فنگس انسانوں کے لیے بےضرر ہے۔

پروفیسر لیجر نے مزید کہا: ’یہ فنگس مچھروں کو کیڑے مار ادویات کو محسوس کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم کر دیتی ہے اور انہیں ان کے خلاف مزید کمزور بنا دیتی ہے یعنی یہ ان کے خلاف ایک دوہرا وار ہے۔‘

یہ پیش رفت ان بیماریوں کے خلاف جنگ میں خوش آئند خبر ہو سکتی ہے جو مچھر پھیلاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال مچھروں سے پھیلنے والے Eastern Equine Encephalitis نامی ایک نایاب مگر خطرناک وائرس نے نیویارک کو ’فوری خطرے‘ سے دوچار کر دیا تھا جس کے باعث نیو ہیمپشائر میں ایک شخص کی موت ہوئی اور میساچوسٹس میں پارک بند کر دیے گئے تھے۔

رواں سال امریکہ کے کئی شہروں میں مچھروں سے پھیلنے والے ایک اور ویسٹ نائل نامی وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے اور ہیوسٹن کی ہیرس کاؤنٹی میں سپرے کیا جا رہا ہے۔

ملیریا اب بھی دنیا بھر میں قابل روک تھام بیماریوں اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے، 2022 میں اس سے 85 ممالک میں چھ لاکھ سے زیادہ اموات ہوئیں۔

لیکن اس سب کے باوجود سوال اب بھی باقی ہے اور وہ یہ کہ انسانوں کو مچھروں کے خلاف یہ جنگ کہاں تک لے جانی چاہیے؟

اکثر ہم مچھروں کے ماحولیاتی یا ایکو سسٹم میں کردار کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مچھر مچھلیوں، مینڈکوں، پرندوں اور چمگادڑوں کے لیے خوراک کا ذریعہ ہیں۔

یہ خود بھی پولی نیٹر (پھولوں کے پولن منتقل کرنے والے) ہیں اور ان کی اصل خوراک خون نہیں بلکہ پھولوں کا رس ہوتا ہے۔

والٹر ریڈ بائیوسسٹیمیٹکس یونٹ کی تحقیقاتی ڈائریکٹر ایوون-ماری لنٹن نے سمتھ سونین میگزین کو بتایا کہ ’زمین پر تین سے زائد اقسام کے مچھر پائے جاتے ہیں مگر ان میں سے صرف چار سو  اقسام ایسی ہیں جو انسانوں میں بیماریاں منتقل کرتی ہیں اور ان میں سے بھی اکثر انسانوں کا خون نہیں چوستیں۔‘

مچھر 20 کروڑ سال سے زمین پر موجود ہیں اس وقت سے جب ڈائنوسار کرہ ارض پر گھوما کرتے تھے۔

زمین اس وقت انسانوں کی وجہ سے ماحولیاتی تنوع کے بحران کا سامنا کر رہی ہے اور انسانوں کی زرعی سرگرمیاں، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کیڑے مکوڑوں کی بقا پہلے ہی خطرے میں ہے۔

اگر وہ کیڑے ختم ہو جائیں جو فصلوں میں پولی نیشن کرتے ہیں، تو ہمیں خوراک اور زرعی اجناس کی شدید کمی کا سامنا ہو گا۔

مچھر شاید وہ واحد جاندار ہیں جنہیں انسانوں نے جان بوجھ کر ختم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے کیوں کہ مچھر اب بھی دنیا کا سب سے خطرناک جانور ہیں۔

گرمیوں اور برسات کے موسم میں ان سے بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی مچھروں کے لیے سازگار ماحول پیدا کر رہی ہے اور ان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے خاص طور پر امریکہ کے ساحلی علاقوں میں۔ خشک سالی میں بھی مچھر ’زیادہ کاٹنے والے‘ بن سکتے ہیں۔

پروفیسر لیجر کے مطابق: ’ایسا مانا جاتا ہے کہ صرف بیماری پھیلا کر مچھروں نے تاریخ میں جتنے انسان مرے ہیں، وہ کل انسانی آبادی کا آدھا حصہ ہو سکتا ہے۔‘

ان کے بقول: ’اگر مچھروں کو جلدی اور موثر طریقے سے ختم کیا جا سکے، تو دنیا بھر میں لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات