پہلے کرونا وائرس نے دنیا کو جھنجھوڑا، اب نہرِ سوئز میں پھنسے جہاز نے ایک اور وارننگ دے دی ہے کہ جدید دنیا اتنی مستحکم نہیں ہے جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں اور چھوٹا سا ایک واقعہ اسے ہلا کر رکھ سکتا ہے۔
پچھلے ہفتے سوئز میں پھنس جانے والے دیوقامت بحری جہاز کی وجہ سے روزانہ دنیا کو نو ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے اور جہاز نکل جانے کی صورت میں بھی بننے والا بدترین ٹریفک جام کئی ہفتوں بعد جا کر صاف ہو گا۔
اس خبر کے بعد سے دنیا کی توجہ نہرِ سوئز کی طرف مبذول ہوئی ہے، لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اس نہر کا اولین منصوبہ دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے دور میں تیار ہوا تھا، لیکن بوجوہ اس پر عمل نہیں ہو سکا، جس کی تفصیل نیچے آئے گی، لیکن حضرت عمر کے دور میں اسی نوعیت کی ایک اور نہر کے ذریعے مصر اور جزیرہ نما عرب کو منسلک کر دیا گیا تھا، جسے ’نہر امیر المومنین‘ کہا جاتا تھا۔
اس نہر کی کھدائی کی تفصیل مولانا شبلی نعمانی اپنی مشہور کتاب ’الفاروق‘ میں بیان کرتے ہیں: ’اس کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ 18 ہجری کو جب تمام عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمر نے تمام اضلاع کے حکام کو لکھا کہ ہر جگہ کثرت کے ساتھ غلہ اور اناج روانہ کیا جائے۔ اگرچہ اس حکم کی فوری تعمیل ہوئی، لیکن شام اور مصر سے خشکی کا جو راستہ تھا بہت دور دراز تھا، اس لیے غلہ بھیجنے میں پھر بھی دیر لگی۔ حضرت عمر نے ان تمام دقتوں پر خیال کر کے عمرو بن العاص (گورنر مصر) کو لکھا کہ مصر کے باشندوں کی ایک جماعت ساتھ لے کر دارالخلافہ حاضر ہو۔
’جب وہ آئے تو فرمایا کہ ’دریائے نیل کو اگر سمندر سے ملا دیا جائے تو عرب کو قحط گرانی کا کبھی اندیشہ نہیں ہو گا، ورنہ خشکی سے غلہ آنا دقت سے خالی نہیں۔‘
شروع شروع میں حضرت عمرو العاص کو تذبذب تھا کہ یہ نہر کھدوائی جا سکتی ہے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمر اس بارے میں بہت سنجیدہ ہیں تو انہوں نے مصر واپس جا کر کام شروع کر دیا۔
شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ’فسطاط سے (جو قاہرہ سے 10، 12 میل ہے) بحرِ قلزم تک نہر تیار کرائی۔ اس ذریعہ سے جہاز دریائے نیل سے چل کر قلزم میں آتے تھے اور یہاں سے جدہ پہنچ کر لنگر کرتے جو مدینہ منورہ کی بندرگاہ تھی۔‘
یاد رہے کہ یہ موجودہ نہرِ سوئز بحیرۂ احمر کو بحیرۂ روم سے ملاتی ہے، جب کہ اوپر بیان کردہ نہر بحیرۂ احمر کو دریائے نیل سے ملاتی تھی۔
شبلی نعمانی کے مطابق ’یہ نہر تقریباً 69 میل لمبی تھی اور تعجب ہے کہ چھ مہینے میں بن کر تیار ہو گئی، چنانچہ پہلے ہی سال 20 بڑے بڑے جہاز جن میں 60 ہزار اردب غلہ بھرا تھا اس نہر کے ذریسے سے مدینہ منورہ کی بندرگاہ میں ائے۔ یہ نہر مدتوں تک جاری رہی اور اس کے ذریعے سے مصر کی تجارت کو نہایت ترقی ہوئی۔‘تاریخ دان عبدا الحکم کے مطابق ایک قبطی مصری نے انہیں وہ قدیم رومی گزرگاہ دکھائی جو اب ریت سے اٹ چکی تھی۔ اس کے عوض حضرت عمرو بن العاص نے اس قبطی اور اس کے خاندان کا جزیہ معاف کر دیا۔
نہر کھدوانا اس لیے بھی آسان ثابت ہوا کہ ایک زمانے میں دریائے نیل کی ایک شاخ بحیرۂ احمر میں جا گرتی تھی۔ بعد میں یہ شاخ سوکھ گئی لیکن اس کے خشک راستے پر نہر کھودنا مشکل نہیں تھا۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ نئی نہر نہیں کھودی گئی بلکہ صدیوں پرانی رومی نہر کی صفائی کر کے اسے بحال کر دیا گیا۔
نہر جب تیار ہوئی تو حضرت عمرو بن العاص نے بھی اس پر سفرِ حج کیا۔
فاطمی دور کے تاریخ دان ابن تویر لکھتے ہیں کہ اس نہر میں چوڑے پیندے والی کشتیوں کو پانچ دن لگتے ہیں جب کہ اونٹوں پر یہی فاصلہ سات یا آٹھ دن میں طے ہوتا ہے۔ وقت کی بچت سے کہیں بڑا فائدہ یہ تھا کہ خشکی کے مقابلے پر نہر سے بہت بڑی مقدار میں سامان کی ترسیل ممکن ہو گئی کیوں کہ صرف ایک بڑی کشتی میں اونٹوں کے ایک چھوٹے قافلے جتنا سامان لادا جا سکتا تھا۔
اس زمانے میں مصر کو مشرقِ وسطیٰ کا کھلیان سمجھا جاتا تھا۔ اب اس کا براہِ راست رابطہ مسلمانوں کے دارالخلافہ سے ہو گیا، جس کی وجہ سے یہاں قحط آنے کا خطرہ ختم ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نہرِ سوئز کا منصوبہ، جسے ترک کر دیا گیا
مولانا شبلی کے مطابق حضرت عمرو بن العاص نے صرف اسی نہر پر اکتفا نہیں کی بلکہ انہوں نے بحیرۂ احمر کو بحیرۂ روم سے ملانے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’چنانچہ اس کے لیے موقع اور جگہ کی تجویز بھی کر لی تھی، اور چاہا تھا کہ فرما کے پاس سے جہاں سے بحرِ روم اور بحرِ قلزم کا فاصلہ صرف 70 میل رہ جاتا ہے، نہر نکال کر دونوں دریاؤں (یعنی سمندروں) کو ملا دیا جائے۔ لیکن جب حضرت عمر کو ان کے ارادے کی اطلاع ہوئی تو نارضامندی ظاہر کی اور لکھ بھیجا کہ اگر ایسا ہوا تو یونانی جہازوں میں آ کر حاجیوں کو اڑ لے جائیں گے۔
’اگر عمرو بن العاص کو اجازت ملی ہوتی تو نہرِ سوئز کی ایجاد کا فخر درحقیقت عرب کے حصے میں آتا۔‘
اس دور میں حاجیوں کے قافلوں پر حملے بہت عام تھے، اس لیے خدشہ تھا کہ نہر کی تیاری سے دشمنوں کو سہولت ملے گی کیوں کہ بحیرۂ روم کے ساتھ لگنے والے تقریباً تمام ملکوں پر عیسائیوں کی عمل داری تھی جن سے مسلمانوں کی جنگیں چل رہی تھیں۔ انہی ملکوں میں قسطنطینہ کی سلطنت بھی شامل تھی جو مشرقِ وسطیٰ پر مسلمانوں کے قبضے کے باوجود کئی صدیوں تک قائم رہی۔
نہرِ سوئز پر تو کام شروع نہ ہو سکا، البتہ نہر امیر المومنین 114 سال تک چلتی رہی۔ 754 میں عباسی خلیفہ کے خلاف حجاز میں بغاوت ہوئی اور خلیفہ المنصور نے مکہ مدینہ کو خوراک کی فراہمی بند کرنے کے لیے اس نہر کو پاٹ دینے کا حکم جاری کر دیا۔
18ویں صدی میں یورپی تاریخ دان بیرن دے توت نے اس نہر کے آثار ڈھونڈ نکالے اور کہا کہ معمولی مرمت سے یہ نہر دوبارہ بحال کروائی جا سکتی ہے۔ تاہم 20ویں صدی میں بڑے پیمانے پر شہری اور زرعی ترقی سے اس نہر کے آثار مٹ گئے۔
قدیم زمانے کے منصوبے
لیکن حضرت عمر وہ پہلے حکمران نہیں ہیں جنہیں نیل سے بحیرۂ احمر تک نہر نکلوانے کا خیال آیا ہو۔
بحیرۂ احمر کو دریائے نیل سے ملانے کا منصوبہ سب سے پہلے فرعونوں کے زمانے میں تیار ہوا تھا۔ روایت ہے کہ 1890 قبل مسیح کے آپس پاس حکومت کرنے والے فرعون سینوسرت ثانی نے اس نہر کی کھدائی شروع کروائی تھی، تاکہ نیل سے بحیرۂ احمر تک کشتیوں کے ذریعے نقل و حمل کی جا سکے۔ تاریخ دان پلنی کے مطابق اس نہر کی لمبائی 60 میل تھی۔
بعد میں دارا اول اور بطلیموس نے بھی اس پرانی نہر کے احیا کی کوششیں کی۔ یونانی تاریخ دان ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ ایک اور مصری حکمران نخاو الثانی نے بھی اسی قسم کی نہر کھدوانے کی کوشش کی مگر ایک لاکھ 20 ہزار مزدوروں کی جانیں گنوانے کے بعد اسے یہ منصوبہ ادھورا ہی چھوڑنا پڑا۔
بعد میں ایرانی شہنشاہ دارا اول نے یہ منصوبہ مکمل کروایا جس میں ہیروڈوٹس کے مطابق دو کشتیاں ساتھ ساتھ چل سکتی تھیں۔
دارا کے کندہ کروائے ایک کتبے پر لکھا ہے:
’شاہ دارا: میں ایرانی ہوں۔ میں نے فارس سے نکل کر مصر فتح کیا۔ میں نیل کہلائے جانے والے دریا سے نہر کھدوانے کا حکم دیا تاکہ اسے فارس سے شروع ہونے والے سمندر سے ملایا جا سکے۔ جب میرے حکم کے بموجب نہر کھود دی گئی تو جہاز فارس سے اس نہر کی مدد سے مصر جانے لگے۔‘
لیکن صحرائی علاقے میں اس نوعیت کے تعمیراتی منصوبوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے ہوا چلنے کے ساتھ ریت اڑ اڑ کر ان میں پڑتی رہتی ہے، ساتھ ہی دریائی پانی بھی اپنے ساتھ مسلسل مٹی لاتا رہتا ہے، چنانچہ کچھ ہی عرصے بعد نہر کے آثار تک مٹ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی دور کے آتے آتے یہ نہر معدوم ہو چکی تھی۔
جدید نہرِ سوئز جسے فرانسیسیوں نے تیار کیا
جدید نہرِ سوئز کا منصوبہ 19ویں صدی کے وسط میں فرانسیسی سفارت کار فرڈیننڈ دے لیسپ نے تیار کیا تھا۔ چونکہ اس زمانے تک بھاپ کی طاقت سے چلنے والے دیوقامت جہاز سمندروں پر راج کر رہے تھے جو دریاؤں کے لیے مناسب نہیں تھے، اس لیے دے لیسپ کی تجویز تھی کہ نہر امیر المومنین یا قدیم رومی یا مصری نہروں سے برعکس بحیرۂ احمر کو دریائے نیل سے نہیں، بلکہ براہِ راست بحیرۂ روم سے ملایا جائے۔ دے لیسپ نے یہ منصوبہ اس زمانے کے مصری خدیو سعید پاشا کے سامنے پیش کیا جنہوں نے اجازت دی اور نہر کھودنے کے لیے سوئز کینال کمپنی قائم کر دی گئی۔
برطانیہ چونکہ فرانس کا حریف تھا اس لیے اس نے اس منصوبے پر ناک بھوں چڑھائی۔ ایک تو انگریز فرانس کو فائدہ پہنچتا نہیں دیکھ سکتے تھے دوسرا یہ اس وقت بحرِ ہند سے یورپ کی تجارت براستہ جنوبی افریقہ سے ہوتی تھی جس پر برطانیہ کا کنٹرول تھا۔
تاہم اس مخالفت کے باوجود 25 اپریل 1859 کو کام شروع ہو گیا اور دس برس کے عرصے اور 15 لاکھ کے قریب مزدوروں کی مشقت کے بعد یہ عظیم منصوبہ مکمل ہوا۔
اس نہر میں ’ایور گیون‘ کے اٹک جانے سے رپورٹوں کے مطابق روزانہ نو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس کا فائدہ نو ارب ڈالر روزانہ ہے۔ اب سوچیے کہ پچھلے 152 سالوں میں اس نہر سے دنیا کو کتنا نفع ہوا ہے؟